ہارمونیم(Harmonium) بجانا کیسا ہے ؟ میرے ایک دوست نے جو دوسرے ملک میں مقیم ہے ، ہارمونیم کا مطالبہ کیا ہے، تو اس کی فراہمی میں کوشش کرنا میرے لئے جائز ہے یا نہیں ؟ شریعت کی نگاہ میں اس کا کیا حکم ہے ؟
واضح رہے کہ موسیقی اسلام میں ناجائز وحرام ہے،لہذا وہ آلات جو صرف موسیقی کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور کسی قسم کے تغیر اور تبدیلی کے بغیر ان سے موسیقی کا کام لیا جاتا ہے، ان کا استعمال ناجائز وحرام ہے، نیز ان کی خرید وفروخت بھی ناجائز ہے۔
صورتِ مسئولہ میں ہارمونیم بجانا ناجائز ہے، نیز سائل کا اپنے دوست کے لیے ہارمونیم فراہم کرنا گناہ میں معاونت کرنے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:
"{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [ المائدة:2]
ترجمہ :اورنیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کی اعانت کرتے رہواور گناہ زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں(بیان القرآن)
مسند احمد میں ہے:
"عن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله بعثني رحمة وهدى للعالمين، وأمرني أن أمحق المزامير۔۔۔"
ترجمہ:ابو امامہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اللہ نے مجھے سارے جہانوں کے لیے ہدایت اور رحمت بناکر بھیجا ہے، اور تمام ”مزامیر“ (گانے باجے کے سامان) کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے"۔
(تتمة مسند الأنصار،حديث أبي أمامة ،ج:36،ص:451،ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
تبيين الحقائق میں ہے:
"(وكره بيع السلاح من أهل الفتنة) لأنه إعانة على المعصية قال الله تعالى {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} [المائدة: 2]۔۔۔وإنما يكره بيع نفس السلاح دون ما لا يقاتل به إلا بصنعة كالحديد لأن المعصيةتقع بعين السلاح بخلاف الحديد ألا ترى أن العصير والخشب الذي يتخذ منه المعازف لا يكره بيعه لأنه لا معصية في عينها."
(كتاب السير،باب البغاة،ج:3،ص:296،ط:دار الكتاب الاسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية.
(قوله: لأنه إعانة على المعصية) ؛ لأنه يقاتل بعينه، بخلاف ما لا يقتل به إلا بصنعة تحدث فيه كالحديد، ونظيره كراهة بيع المعازف؛ لأن المعصية تقام بها عينها."
(كتاب الجهاد، باب البغاة،ج:4،ص:268،ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144403101491
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن