بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام ابیہا رکھنے کی وجہ


سوال

سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو "ام ابیہا" کنیت دینے کی کیا وجہ ہے؟

جواب

حضرت فا طمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی کنیت ام ابیہا متعدد کتب حدیث و تراجم میں منقول ہے۔ اس کنیت کا معنی ہے اپنے والد کی ماں، اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی زوجہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے والدہ کی طرح تھیں، آپ علیہ السلام جب حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو دیکھتے تھے تو آپ علیہ السلام کو  فاطمہ بنت اسد یاد آتی تھیں   ان کے ساتھ مشابہت کی وجہ سےحضرت فاطمہ کی کنیت ام ابیہا رکھی گئی۔

ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا برتاؤ والدہ جیسا تھا، اور خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی ایک ماں کی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی تھیں اس لیے ان کی کنیت ام ابیہا رکھی گئی۔ روایات میں آتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آتا ہوا دیکھتے تھے تو ان کا خیر مقدم کرتے تھے اور ان کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے، پھر پیشانی پہ بوسہ دیتے تھے اور ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ پر بٹھادیتے تھےاور جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو آتا ہوا دیکھتی تھیں تو آپ علیہ الصلاۃ السلام کا خیر مقدم کرتیں، آپ علیہ السلام کے لیے کھڑی ہوتیں آپ  کی پیشانی کو بوسہ دیتیں تھیں۔

تاہم صراحت کے ساتھ ام ابیہا کنیت رکھنے کی وجہ کسی معتبر کتاب میں نہیں مل سکی۔

سنن نسائی میں ہے:

"9192 - أخبرني زكريا بن يحيى قال: حدثنا إسحاق قال: أخبرنا النضر بن شميل قال: حدثنا إسرائيل قال: أخبرنا ميسرة بن حبيب النهدي قال: أخبرني المنهال بن عمرو قال: حدثتني عائشة بنت طلحة، عن عائشة أم المؤمنين قالت: ما رأيت أحدا من الناس أشبه كلاما برسول الله صلى الله عليه وسلم ولا حديثا ولا جلسة من ‌فاطمة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رآها قد أقبلت، ‌رحب ‌بها، ثم قام إليها، فقبلها، ثم أخذ بيدها فجاء بها حتى يجلسها في مكانه، وكانت إذا رأت النبي صلى الله عليه وسلم، رحبت به، ثم قامت إليه فقبلته، وإنها دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي قبض فيه، فرحب بها، وقبلها،...".

(كتاب عشرة النساء‌‌، قبلة ذي محرم، 8/ 291، ط: مؤسسة الرسالة)

طبقات ابن سعد میں ہے:

"25 - علي بن أبي طالب، رضي الله عنه:واسم أبى طالب عبد مناف بن عبد الطّلب، واسمه شَيْبَةُ بن هاشم، واسمه عمرو بن عبد مناف، واسمه المُغيرة بن قُصَيّ، واسمه زيد ويكنى عليّ أبا الحسن، وأمّه فاطمة بنت أسد بن هاشم بن عبد مناف بن قُصيّ".

(‌‌الطبقة الأولى على السابقة في الإسلام ممن شهد بدرًا، من بنى هاشم بن عبد مناف، علي بن أبي طالب، رضي الله عنه، 3/ 17 ط : مكتبة الخانجي)

المعجم الكبیر للطبرانی میں ہے:

"985 - حدثنا الحسين بن فهم، ثنا مصعب بن عبد الله الزبيري قال: «كنية فاطمة ‌أم ‌أبيها»".

(‌‌مسند النساء، ذكر سن فاطمة رضي الله عنها ووفاتها ومن أخبارها ومناقبها وكنيتها، 22/ 397، ط:مكتبة ابن تيمية)

فوائد الحنائی میں ہے:

"وهكذا كان مكتوبا في ديوان عمر عن أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها وكنيتها أم عبد الله عن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي أم أبيها بذلك كناها رسول الله صلى الله عليه وسلم".

(1/ 241، ط: أضواء السلف)

اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ میں ہے:

"وكانت فاطمة تكنى أم أبيها، وكانت أحب الناس إلى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".

(‌‌‌‌حرف الفاء، 7183- فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، 7/ 216، ط: دار الكتب العلمية)

سیر اعلام النبلاء میں ہے:

"وهي سيدة نساء هذه الأمة كنيتها فيما بلغنا أم أبيها دخل بها علي -رضي الله عنه- بعد وقعة بدر، وقد استكملت خمس عشرة سنة أو أكثر".

(سير الخلفاء الراشدين، راشدون/ 50، ط: مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102337

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں