بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

Harassment (ہراساں کرنے) کا ذمہ دار کون؟


سوال

ہراساں (Harassment) کا ذمہ دار اسلامی رو سے کون ہوتا ہے؟ کچھ لوگ عورتوں کے لباس کو وجہ بناتے ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حجاب کرنے والی (اگرچہ ریشو کم ہوتا ہے) اور چھوٹی بچیاں تک ہراس ہو جاتی ہیں۔ اس لیے براہِ مہربانی مجھے بتائیں کہ ہراساں (Harassment) کا ذمہ دار کون ہوتا ہے؟ اور کیوں؟ 

جواب

واضح رہے کہ دینِ اسلام عورتوں کو بغیر ضرورت کے گھر سے باہر نکلنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، نیز اگر ضرورت کی وجہ سے کسی عورت کو باہر جانا ہی ہو تو اسے باپردہ ہوکر اور حتّی الامکان محرم کے ساتھ جانے کی تاکید کرتا ہے، جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو شیطان مردوں کی توجہ اس کی طرف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

دوسری طرف اسلام میں مردوں کو بھی بد نظری کرنے سے روکا ہے جس کی ایک صورت غیر محرم عورتوں کو دیکھنا ہے جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بد نظری شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ بد نظری ہی کی وجہ سے انسان کے دل میں گناہوں کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات انسان کسی کمزور کو ہراساں تک کرلیتا ہے!

نیز مسلم ممالک میں حکومتِ وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی جان و عزت کی حفاظت کرنے کے مناسب انتظام کرے اور اس معاملہ میں جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو ایسی عبرت ناک سزا دے کہ آئندہ کسی کی ہمّت نہ ہو ایسے جرائم اختیار کرنے کی۔

حاصل یہ ہے کہ  اسلام عورت کو باپردہ رہنے، مرد کو نظروں کی حفاظت کرنے اور حکومتِ وقت کو لوگوں کی  جان و عزت کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے اور جب عورت، مرد یا حکومتِ وقت میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرے گا تو  عورتوں اور بچیوں کو ہراساں کرنے کا راستہ کھل جائے گا!

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5 / 2054):

"(عنه) أي عن ابن مسعود (عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: المرأة عورة فإذا خرجت) أي من خدرها (استشرفها الشيطان) أي زينها في نظر الرجال وقيل: أي نظر إليها ليغويها ويغوي بها والأصل في الاستشراف رفع البصر للنظر إلى الشيء وبسط الكف فوق الحاجب والعورة السوأة وكل ما يستحى منه إذا ظهر، وقيل أنها ذات عورة والمعنى أن المرأة غيرها بها فيوقعها أو أحدهما في الفتنة أو يريد بالشيطان شيطان الإنس من أهل الفسق أي إذا رأوها بارزة استشرفوها بما بثه الشيطان في نفوسهم من الشر ومحتمل أنه رآها الشيطان فصارت من الخبيثات بعد أن كانت من الطيبات. (رواه الترمذي)."

المستدرك على الصحيحين للحاكم (4 / 349):

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «النظرة سهم من سهام إبليس مسمومة فمن تركها من خوف الله أثابه جل وعز إيمانا يجد حلاوته في قلبه» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144205201283

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں