بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرم شریف اور مدینے منورہ میں نمازی کے آگے سے گزرنے کا حکم


سوال

حرم شریف اور مدینے منورہ میں  نمازی کے آگے سے گزرناکا حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ چھوٹی مساجد میں نمازی کے سامنے سے گزرنا جائز نہیں ، بڑی مساجد میں  نمازی کے مقام سے دو صفوں  کے فاصلے سے گزرنا جائز ہے، بڑی مسجد وہ ہےجو  پیمائش کے لحاظ سے چالیس شرعی گز لمبی اور چالیس شرعی گز چوڑی  ہو وہ مسجدِ کبیر ہے، اور ایک شرعی گز ڈیڑھ فٹ (اٹھارہ انچ) کا ہوتا ہے، اس حساب سے مسجدِ کبیر وہ ہو گی جو ساٹھ فٹ لمبی اور ساٹھ فٹ چوڑی ہو، اور چھوٹی مسجد وہ ہے، جو مذکورہ مقدار سے کم ہے، نیز مسجد حرام میں  طوا ف کرنے والے  نمازی کی سجدہ گاہ کو چھوڑ کر گزر سکتےہیں؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں  مسجد حرام یامسجد نبوی جو کہ بڑی مساجد میں سے ہیں،ان مساجد میں نمازی کے سامنے سے نمازی کی جگہ سے دوصفوں کے فاصلےسے گزرنا جائز ہے، البتہ اگر شدید مجبوری کی حالت ہو تو اس میں بھی کھلے عام نمازی کے سجدے کی جگہ کے اندر سے گذرنے سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے، بلکہ اس صورت میں نمازی کے آگے کسی رومال، کپڑے یا چھڑی وغیرہ سے یا کسی دوسرے شخص کو آگے کر کے سترہ بنا کر گذرنا چاہیے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: و مسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعًا، وقيل: من أربعين، وهو المختار، كما أشار إليه في الجواهر، قهستاني."

(کتاب الصلوٰۃ، باب الاستخلاف، فروع مشى المصلي مستقبل القبلة هل تفسد صلاته، ج:1، ص:634، ط:سعید)

وفیه أیضاً:

"ذكر في حاشية المدني لا يمنع المار داخل الكعبة وخلف المقام وحاشية المطاف، لما روى أحمد وأبو داود عن ’’المطلب بن أبي وداعة أنه رأى النبي - صلى الله عليه وسلم - يصلي مما يلي باب بني سهم والناس يمرون بين يديه وليس بينهما سترة‘‘ وهو محمول على الطائفين فيما يظهر لأن الطواف صلاة، فصار كمن بين يديه صفوف من المصلين انتهى."

(كتاب الصلاة، باب الإستخلاف، فروع مشى المصلي مستقبل القبلة هل تفسد صلاته، ج:1، ص:635، ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’جو مسجد چالیس گز (شرعی)  اور اتنی ہی چوڑی ہو  وہ مسجد کبیر ہے جو اس سے چھوٹی ہو وہ مسجدِ صغیر ہے۔‘‘

(ج:14، ص:384، ط:مکتبہ فاروقیہ)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

’’اگر اتنی چھوٹی مسجد یا کمرے یا صحن میں نماز پڑھ رہاہو کہ اس کا کل رقبہ۱۶۰۰ہاتھ = ۴۵۱ء۳۳۴  مربع میڑسے کم ہے، تو نمازی کے سامنے سے گزرنا مطلقاً ناجائز ہے، خواہ قریب سے گزرے یا دور سے، بہرحال گناہ ہے، البتہ اگر کھلی فضاء میں یا ۴۵۱ء ۳۳۴ مربع میٹر یا اس سے بڑی مسجد یا بڑے کمرے یا بڑے صحن میں نماز پڑھ رہاہے، تو سجدہ کی جگہ پر نظر جمانے سے آگے جہاں تک بالتبع نظر پہنچتی ہو، وہاں تک گزرناجائز نہیں، اس ہٹ کر گزرنا جائز ہے، بندہ نے اس کا اندازہ لگایا تو سجدہ کی جگہ سے ایک صف کے قریب ہو؛ لہذا نمازی کے موضعِ قیام سے دو صف کی مقدار (تقریباً آٹھ فٹ=۴۴ء۲ میٹر) چھوڑ کر گزرنا جائز ہے۔‘‘

(باب مفسدات الصلوٰۃ والمکروہات، ج:3، ص:409، ط:ایچ ایم سعید)

دوسری جگہ مذکور ہے:

سوال: ایک شخص نمازی کے سامنے گزرنے کےلیے اپنا رومال لٹکا کر یا اپنی چھڑی کرکے اس کے پیچھے سےگزرجاتاہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب: علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کو اس بارہ میں کوئی صریح جزئیہ نہیں ملا، ونصه وإذا کان معه عصا لاتقف علی الأرض بنفسھا فأمسکھا بیدہ ومر من خلفھا، ھل یکفی ذلك؟ لم أرہ (ردالمحتار، ج:1، ص595)

بظاہر اس کے جواز سے کوئی مانع نہیں ؛ لہذا بوقتِ ضرورت اس کی گنجائش ہے، بالخصوص جب کہ عند البعض لکڑی زمین پر لٹا دینا یا خط کھینچ دینا بھی سترہ کےلیے کافی ہے، علاوہ ازیں مسجدِکبیر  اور صحراء میں موضعِ سجود کے ساتھ کراہتِ مرور کی تخصیص کا قول بھی مصحح ہے، بوقتِ ضرورت اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔

اب مفسدات الصلوٰۃ والمکروہات، ج:3، ص:410، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں