بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سیونگ اکاؤنٹ اورحرام پیسے کا مصرف


سوال

1- میں جس ادارے میں میں  سروس کر رہا ہوں اس کی سیلری نیشل بنک میں آتی ہے اور میرا سیلری اکاؤنٹ بینک نے سیونگ اکاؤنٹ کے ہیڈ میں کھولا ہے، اس میں کوئی رقم فکس وغیرہ نہیں ہے جو اکاؤنٹ میں سیلری آتی ہے وہی ہوتی ہے، یا کوئی اور  پیسے وغیرہ ہوں تو وہ بھی اسی اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتا ہوں، کیوں کہ اس کے علاوہ میرا کوئی  اور اکاؤنٹ نہیں ہے، کبھی تو کچھ روپے تک بھی اکاؤنٹ چلا جاتا ہے، ليکن اس پر بینک جولائی میں کچھ نہ کچھ منافع کی مد میں بھیج دیتا ہے، کیا یہ منافع جائز ہے یا حرام ہے؟ اور اگر حرام ہے تو اس کو کس جگہ خرچ کروں؟

2-  اگر کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جس کی اولاد نرینہ نہ ہو صرف بیٹی اور بیوی ہو تو اس کی جائیداد  اور باقی ترکہ کس طرح تقسیم ہوگا؟

جواب

1- صورتِ  مسئولہ میں اگر ادارے کی طرف سے سیونگ اکاؤنٹ کھولنے کی لازمی شرط اور پابندی نہ ہو تو   سیونگ اکاؤنٹ کو   کرنٹ اکاؤنٹ میں تبدیل کرالیں؛  تاکہ سودی لین دین سے محفوظ رہ سکیں، سیونگ اکاؤنٹ میں منافع کے نام پر ملنے والی رقم    سود ہونے کی وجہ سے    حرام ہے،بینک وغیرہ  سے سودی رقم وصول کرنا جائز نہیں  ہے؛ لہٰذا اکاؤنٹ میں جو سودی رقم آئے اسے وصول ہی نہ کریں۔ البتہ اگر وصول کرلی ہو  تو اسے  مستحق زکاۃ شخص کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

2- اس کے مال کے 8 حصے کر کے 1 حصہ بیوہ کواور 4 حصے بیٹی کو اور  عصبہ موجود ہوں تو بقیہ 3 حصے عصبہ  کو  دیے  جائیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و الحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام لا يحل له و يتصدق به بنية صاحبه."

(‌‌باب البيع الفاسد، ‌مطلب ‌فيمن ‌ورث ‌مالا ‌حراما،ج:5، ص:99، ط: دارالفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144412101360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں