بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرم میں مقتدی کا امام سے آگے ہونا


سوال

جب جماعت ہوتی ہے تو امام کے آگے صف بنانے کی اجازت نہیں ہوتی، نہ امام سے آگے بڑھنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن اس معاملے میں رہنمائی فرمائیں کہ خانہ کعبہ میں جب کوئی جماعت ہوتی ہے تو امام صاحب تو برآمدے میں کھڑے ہوتے ہیں اور خانہ کعبہ کے پاس جو لوگ صفیں بناتے ہیں بعض اوقات وہ کچھ فاصلہ امام کے آگے کا چھوڑ دیتے ہیں،مگر بعض اوقات مکمل طور پر صف بنائی جاتی ہے، یعنی وہ صفیں امام کے آگے ہوتی ہیں ،ان کے بارے میں  ہمیں سمجھائیں ،اسلام میں کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مسجدِ حرام میں  امام چار جہتوں میں سے جس جہت میں کھڑا ہو کر  نماز پڑھا رہا ہے، اس جہت میں اگر کوئی مقتدی امام سے اتنی مقدار آگے بڑھتا ہے کہ اس کی ایڑھی امام کی ایڑھی سے آگے ہوجائے اور وہ کعبہ سے امام کی بہ نسبت زیادہ قریب ہوجائے تو ایسے مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔اور وہ مقتدی جو امام کی جہت میں نہ ہوں، بلکہ دوسری جہات کی طرف ہوں، ان میں سے اگر کوئی مقتدی امام کی بہ نسبت کعبہ سے زیادہ قریب ہو تو ایسے مقتدی کی نماز صحیح اور درست ہے۔

آج کل بعض ائمہ، حرمِ مکی میں بیت اللہ سے کافی فاصلے پر برآمدے میں مخصوص جگہ میں نماز کی امامت کرتے ہیں؛ اور زائرین سمجھتے ہیں کہ ازدحام وغیرہ کی وجہ سے بوجہ عذر امام کے آگے بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے، اس وجہ سے آج کل کچھ کوتاہی دیکھنے میں آرہی ہے، مسجدِ حرام میں نماز ادا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اس بات کا اہتمام کرے  کہ جس جہت میں امام کھڑا ہو  اس جہت میں امام سے آگے نہ ہو، ورنہ نماز (خواہ پنج وقتہ ہو یا نمازِ جنازہ) ادا نہیں ہوگی، ازدحام وغیرہ کی وجہ سے بھی احناف کے نزدیک امام کی جانب آگے بڑھ کر نماز ادا کرنے سے نماز نہیں ہو گی۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

 ’’وإذا صلی الإمام في المسجد الحرام تحلق الناس حول الکعبة وصلوا صلاة الإمام، فمن کان منهم أقرب إلى الکعبة من الإمام جازت صلاته إذا لم یکن في جانب الإمام، کذا في الهدایة‘‘.

(ومما یتصل بذلك الصلاة في الکعبة، ج:1، ص:65، طبع: رشیدیه)

 فتاویٰ شامی میں ہے:

’’(قوله: إن لم یکن في جانبه) أما إذا کان أقرب إلیها الإمام فإن کان متقدماً على الإمام بحذائه فیکون ظهره إلى وجه الإمام ... أو کان على یمین الإمام أو یساره متقدماً علیه من تلك الجهة ویکون ظهره إلى الصف الأول الذي مع الإمام ووجهه إلى الکعبة، فلایصح اقتداءه؛ لأنه إذا کان متقدمًا علیه لایکون تابعًا له‘‘.

(الصلاة في الکعبة، ج:2، ص:555، طبع: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں