بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام منافع کا مصرف، ایک بطن کا مناسخہ


سوال

میرے تایا نے دو شادیاں کی تھیں، ان کی پہلی بیوی کا انتقال ان کی حیات میں ہی ہو چکا تھا، پھر اس کے بعد تایا نے دوسری شادی کی تھی، ابھی ان کی دوسری بیوی کا انتقال ہوا ہے، دوسری بیوی کے والدین اور شوہر یعنی میرے تایا ان کی حیات میں ہی انتقال کر گئے تھے، دوسری بیوی کی کوئی اولاد نہیں تھی، دوسری بیوی کے انتقال کے وقت ان کا ایک بھائی اور بہن حیات تھی، پھر ان کے بعد ان کے بھائی کا انتقال ہو گیا، ان کی ایک بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، نیشنل سیونگ سرٹیفکٹ میں مرحومہ کے 23 لاکھ روپے موجود ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ مرحومہ کا ترکہ ان کے ورثاء میں کس طرح تقسیم کیا جائے گا؟ تایا کی جو پہلی بیوی تھی ان کے بچوں کو تایا کی دوسری بیوی کے ترکہ  میں سے حصہ ملے گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نیشنل سیونگ سرٹیفکٹ کے ذریعہ جو سرمایہ کاری کی جاتی ہے اُس میں شرعی اصولوں کی رعایت نہیں کی جاتی، اِس لیے نیشنل سیونگ سرٹیفکٹ کے ذریعہ منافع حاصل کرنا جائز نہیں، جو منافع مذکورہ سرٹیفکٹ کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہو وہ چونکہ حرام ہے اس لیے اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ   وہ ثواب کی نیت کے بغیر کسی مستحق کو دے دیا جائے، باقی جو اصل رقم ہے وہ ورثاء میں تقسیم ہو گی۔

مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہو گا کہ اولاً مرحومہ کے ترکہ سے اُن کی تجہیز و تکفین  کے اخراجات ادا کیے جائیں، پھر اگر ان کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اس کو ادا کرنے کے بعد انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد  کل ترکہ کو 12 حصوں میں تقسیم کر کے 4 حصے  بہن کو، 1 حصہ  مرحوم  بھائی کی بیوہ کو، 2  حصے ہر ایک بیٹے کو اور  1 حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

مرحومہ 12/3

بھائیبہن
21
فوت شد4

بھائی 8 وفق 4 _______________ ما فی الید 2 وفق 1

بیوہبیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
122111

یعنی  سو روپے میں 33.33 روپے بہن کو، 8.33 روپے مرحوم بھائی کی بیوہ کو، 16.67 روپے ہر ایک بیٹے کو اور 8.33 روپے ہر ایک بیٹے کو ملیں گے۔

تایا کی دوسری بیوی کے ترکہ میں اُن کی پہلی بیوی کی اولاد حصہ دار نہ ہو گی۔

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمکنه الرد إلی المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء … قال: والظاهر إن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولا یرجو به المثوبة۔"

(معارف السنن، أبواب الطهارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طهور، ۱: ۳۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں