بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرم میں صفیں دائرے کی شکل میں ہیں ،ان میں صف کی تعیین اور صف اول کی تعیین،اور امام سے آگے بڑھنے والوں کاحکم


سوال

نمبر 1۔مسجد حرام میں نماز کی صفیں دائرے کی شکل میں ہوتی ہیں:

سوال یہ ہےکہ ان میں ہر دائرہ ایک صف کے حکم میں ہوتاہے  یا اس کا محدود حصہ  صف کے حکم میں ہوتاہے، اگر ہر دائرے کا محدود حصہ ہی صف کہلاتاہے ، تو حد واضح فرمادیجئے ، اور یہ بھی کہ اس صورت میں کونسی  صف آخری صف  کہلائےگی۔

نمبر 2۔امام صاحب کعبہ کی کسی جانب نہیں  بلکہ رکن  کعبہ مثلا ً عین حجر ِ اسود   کے مقابل ہوں تو صف اول ، دوم وغیرہ کی حدیں کیا ہوں گی۔

نمبر3۔موجودہ وبا سے پہلے  سنا تھا  کہ حج کے دنوں میں امام صاحب مسجد حرام کے بر آمدے کی چھت پر نماز کی امامت کراتے ہیں اور نیچے فرش  (صحن میں ) امام کی جہت میں بھی امام  سے آگے مقتدیوں  کی بہت سی صفیں   ہوتی ہیں ، اب جو مقتدی امام سے آگے کھڑے ہوتے ہیں ان مقتدیوں کی نماز ہوجاتی ہے؟نیز اس صورت میں صف اول کونسی صف کو کہا جائے گا؟یعنی امام کے متصل صف کو یا اس صف کو جوکعبہ کے قریب تر ہو؟حضرات ائمہ کرام  میں اختلاف ہو تو از راہِ کرم مختصر سا تذکرہ اس  کا بھی فرمادیا جائے۔

جواب

1۔  کعبہ کے گرد دائرے کی شکل میں صفیں بناکر نماز پڑھنے کی صورت میں ہر دائرہ ایک مستقل  صف کے حکم میں ہوتاہے،دائرہ کاکوئی  محدود حصہ صف کے حکم میں نہیں ہوتا۔

2۔امام صاحب اگر حجر اسود کے عین مقابل ہو تو اس صورت کا حکم یہ ہے کہ امام کی جانب میں صف اول وہی ہے جو امام کے پیچھے ہے اور دوسری جانب میں صف اول وہ ہے جو کعبہ کے قریب ہے ۔

3۔ امام صاحب اگر مسجد حرام کے برآمدے کی چھت پر امامت کرارہے ہیں ،تونیچے نماز پڑھنے والوں کایہ حکم ہے کہ جس جہت میں  امام کھڑا ہے اس جہت میں اگر کوئی مقتدی امام سے اتنی مقدار آگے بڑھتاہے کہ اس کی ایڑھی امام کی ایڑھی سے آگے ہوجائے اور وہ کعبہ سے امام کی بنسبت زیادہ قریب ہوجائے تو ایسے مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے اور جو مقتدی امام کی جہت میں نہ ہوں ،بلکہ دوسری جہات کی طرف ہوں، وہ اگر امام کی بنسبت کعبہ سے زیادہ قریب ہوں تو ان کی نماز درست ہے ۔

نیز اس صورت میں کعبہ کی جانب میں صف اول وہ ہے جو امام کے پیچھے ہے اور دوسری جانب میں جو صف کعبہ کے قریب ہے وہ صف اول ہے ۔

دوسرے ائمہ  کے ہاں بھی امام کی جانب میں صف اول وہی ہے جو امام کے پیچھے ہے، البتہ دوسری جانب میں صف اول کے بارے میں ان کے ہاں  دو قول ملتے ہیں :

۱۔صف اول وہ ہے جو امام کے پیچھے ہے ،اور وہ متصل دوسری جہات میں پھیلاہواہے۔

۲۔جو صف کعبہ کے زیادہ قریب ہے وہ صف اول ہے ۔

درمختار میں ہے:

(ويصح لو تحلقوا حولها، ولو كان بعضهم أقرب إليها من إمامه إن لم يكن جانبه)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 254)

ملا علی قاری الفضل المعول میں لکھتے ہیں :

وأجمع علماء الأنام على جواز كون المقتدي بالإمام في غير جهته أقرب منه إلى الكعبة في المقام ، وأن المتقدم في كل جهة بحيث لم يكن قبله صف اۤخر موصوف بأنه في الصف الأول خلافا لبعض العوام.

الفضل المعول في الصف الأول لعلي القاري ص :362،ط:دار اللباب

وفيه أيضا:

وعن ابن جريج قال: قلت لعطاء: إذا قل الناس في المسجد الحرام أحب إليك أن يصلوا خلف المقام أو يكونوا صفا واحدا حول الكعبة؟ قالأن يكونوا صفا واحدا حول الكعبة.

الفضل المعول في الصف الأول لعلي القاري ص  :365،ط:دار اللباب

فتاوی رملی میں ہے:

" سئل هل الصف المستدير حول الكعبة ، المتصل بما وراء الإمام : هل يسمى صفا أول ، وكذلك من في غير جهته ، وهو أقرب إلى الكعبة منه ؟فأجاب رحمه الله : بأن الصف الأول صادق على من ذُكر ، إذا لم يفصل بينه وبين الإمام صف " انتهى.

" فتاوى الرملي " (1/239)

تحفۃ الحبیب علی شرح   الخطیب میں ہے:

" وقال شيخنا:هو أي الصف الأوّل مِن المستديرين : الأقرب إلى الكعبة ، في غير جهة الإمام

تحفة الحبيب على شرح الخطيب " (2/134)

تحفۃ المحتاج شرح منہاج میں ہے:

قال ابن حجر الهيتمي رحمه الله : " والصف الأول في غير جهة الإمام ، ما اتصل بالصف الذي وراء الإمام ، لا ما قرب للكعبة "

تحفة المحتاج في شرح المنهاج(8/154).

حاشیۃ ابن قاسم علیالروض المربع میں ہے:

والصف الأول حينئذ ، في غير جهة الإمام : هو ما اتصل بالصف الأول الذي وراء الإمام لا ما قرب من الكعبة

حاشية ابن قاسم علی "الروض المربع" (2/335)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100526

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں