بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام مال والے سے صدقہ یا ہدیہ لینا


سوال

اگر کسی کاپیسہ حرام ہو اور وہ کسی کوصدقہ یا ہدیہ دیتا ہے تو اس سے صدقہ  اور ہدیہ  لیناکیسا ہے؟

جواب

اگر كسي شخص كے مال كے متعلق یقینی طور پر معلوم ہو کہ اس کا  مال  حرام ہے، تو  ایسے شخص سے صدقہ لینا اور  اس كا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے، باقی اگر لینے والا غریب اور مستحقِ زکوٰۃ ہو تو لے سکتاہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."

(الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية،  الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات،5 / 342، ط: رشیدیہ)

وفیه أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

(الفتاوى الهندية، کتاب الکراہیة، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، 5 / 343, ط: رشیدیة)

"الاختيار لتعليل المختار"میں ہے:

"و الملك الخبيث سبيله التصدق به ، و لو صرفه في حاجة نفسه جاز، ثم إن كان غنيًّا تصدق بمثله، و إن كان فقيرًا لايتصدق."

(كتاب الغصب، ج:3، ص:70، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144406100269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں