حرام مال سے افطاری اور سحری کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ جان بوجھ کر حرام آمدنی سے افطاری اور سحری کھانا جائز نہیں ، نیز اسی طرح سال بھر کے دیگر اخراجات میں حرام آمدنی استعمال کرنا بھی جائز نہیں،حدیث شریف میں ہےکہ: "بندہ جب حرام لقمہ پیٹ میں ڈال لیتا ہےتو چالیس دن تک اُس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا"،لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ حرام ذرائع آمدن کو چھوڑ کر حلال ذرائع آمدن اختیار کرے،البتہ اگرفی الحال اُس کے پاس اتنے حلال پیسے نہیں ہیں جس سے وہ اپنےلیے اور اپنے اہل وعیال کے لیےسحری وافطاری کا انتظام کرسکے،تو کسی سے قرض لے کر سحری وافطاری کا انتظام کرناجائز ہے،نیز قرض کی ادائیگی بھی حرام آمدنی سے جائز نہیں،حرام آمدنی کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرناواجب ہے،الغرض حرام مال سے افطاری کرنا یا کسی کو افطاری کروانا یا حرام مال ے سحری کھانا یا کسی کو کھلانا دونوں ناجائز ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"(يَا أَيُّھَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلالاً طَيِّباً وَلا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ)۔۔۔۔عن ابن عباس، قال تليت هذه الآية عند النبي صلى الله عليه وسلم يا أيها الناس كلوا مما في الأرض حلالا طيبا فقام سعد بن أبي وقاص فقال: يا رسول الله، ادع الله أن يجعلني مستجاب الدعوة، فقال «يا سعد أطب مطعمك، تكن مستجاب الدعوة، والذي نفس محمد بيده، إن الرجل ليقذف اللقمة الحرام في جوفه ما يتقبل منه عمل أربعين يوما، وأيما عبد نبت لحمه من السحت والربا فالنار أولى به".
(سورةالبقرة،آيت:168، 348/1، ط:دارالكتب العلمية)
فتاوٰی شامی میں ہے:
"وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه. اهـ"
(کتاب الحظر والإباحة،فصل فی البیع،385/6، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402100647
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن