بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام مال میراث میں تقسیم نہیں ہوتا بلکہ واجب التصدق ہے


سوال

میرا حقیقی بھائی پراوئیٹ بینک کی ملازمت کرتا تھا ،اس کا کینسر کے مرض میں انتقال ہوگیا ،اس کو وہاں سے بقایاجات ملنے ہیں ،ورثا میں والد ،والدہ ،بیوہ،3 بیٹے اور ایک بیٹی ہیں ،مرحوم کا ترکہ درج ذیل ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ کوئی بھی بینک سودی کاروباری سے پاک نہیں ہے ،اور قرآن و حدیث میں سودی لین دین کی سخت ممانعت آئی ہے ،بلکہ سود خور کو  اللہ اور کے رسول سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے   ،اسی وجہ سےبینک میں کسی قسم کی  ملازمت کرنا  سودی لین دین میں معاونت کرنے کی وجہ سے نا  جانائز اور حرام ہے،اور اس کام کی وجہ سے ملنے والی تنخواہ بھی ناجائز اور حرام ہے،نیز یہ بھی واضح رہے کہ حرام  مال میراث میں تقسیم نہیں ہوتا ہے ،بلکہ  ایسامال اصل مالک کی طرح ورثاء کے لیے بھی حرام ہوتا ہے اور واجب التصدق ہوتا ہے ،یعنی ورثاء پر لازم ہوتا ہے کہ اس حرام مال  کسی مستحق زکوۃ کو صدقہ کریں ؛ لہذا صورت مسئولہ میں مرحوم بھائی کو بینک سے  ملنے والے بقایاجات حرام ہے ،اس کو  ورثاء کے درمیان تقسیم نہیں کیا جائے گا بلکہ ورثاء کو  اس کا صدقہ کرنا واجب ہے ۔

البتہ اس کے علاوہ  اگر مرحوم بھائی کے پاس  دیگر ترکہ جو جائز آمدنی سے حاصل شدہ ہو اس کی تقسیم کا  شرعی طریقہ یہ  ہے کہ اس سے  مرحوم کے  حقوق  متقدمہ     یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو168 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ،والد کو 28 حصے،والدہ کو 28 حصے ،بیوہ کو 21 حصے ،ہر ایک بیٹے کو 26 حصے اور بیٹی کو 13 حصے ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت  168/24

بیوہوالدوالدہبیٹابیٹابیٹابیٹی
34413
21282826262613

یعنی 100 فیصد میں سے والد کو 16.66 فیصد ،والدہ کو 16.66 فیصد ،12.5 فیصد ،ہر بیٹے کو 15.476 فیصد اور بیٹی کو 7.738 فیصد ملے گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة ۔وفي الرد (قوله وسنحققه ثمة) أي في كتاب الحظر والإباحة. قال هناك بعد ذكره ما هنا لكن في المجتبى: مات وكسبه حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل"

(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:5،ص:99۔ط:سعید)

 السنن الكبري للبيہقی ميں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبى - صلى الله عليه وسلم - أنه قال:كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا."

(باب كل قرض جر منفعۃ فهو ربا:رقم،11037،294/11،هجر للبحوث والدراسات العربيۃ والإسلاميۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں