بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام آمدنی والے سے کھانا/ہدیہ قبول کرنا اور حرام مال کا مصرف


سوال

ایک صاحب اسلامی بینک میں کام کرتے تھے،اب وہ بینک سے ریٹائر ہوگئے ہیں اور ان کے مختلف گھر اور دفتر وغیرہ ہیں جو انہی پیسوں سےہی لئے تھے، ان کا کرایہ آتا ہے، اب درجِ ذیل مسائل معلوم کرنے ہیں:

1:ان کے گھر میں کھانے پینے کا کیا حکم ہے؟

2: وہ کوئی چیز ہدیہ دیں تو اس کا کیا حکم ہے؟

3:وہ اپنی پراپرٹی پاک کرنا چاہتے ہیں اس کا کیا طریقہ ہے؟

4: ایک گھر ایسا ہے انہوں نے بینک کے پیسوں سے خریدا تھا پھر اسے مکمل توڑ کر بنایا اسکی پاکی کے لئے کونسے پیسوں کو دےگا؟

5۔ پاکی کے پیسے زکوة كے مستحق کو دینا ضروری ہے؟ یا کسی کو بھی دے سکتا ہے؟ فتاوی عثمانیہ میں پڑھا تھا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی دے سکتا ہے۔

جواب

1/ 2: صورتِ مسئولہ میں بینک کی آمدنی سودی معاملات پر مشتمل ہونے کی وجہ سےحرام ہے، اگر کسی شخص نے مذکورہ تنخواہ سے مکان بناکر کرایہ پر دیا ہے تو اس سے ملنے والا کرایہ بھی حرام ہے، لہذا اگر یہ یقین ہے کہ کھانا کھلانے والا کھانا یا ہدیہ حرام آمدنی ہی سے دے رہا ہے تو ایسے شخص کے گھر کھانا کھانا یا اس کا ہدیہ قبول کرناجائز نہیں ہے، ، البتہ اگرہدیہ یا کھانا حلال رقم سے ہونے کا یقین ہو یا وہ خود وضاحت کرےتو وہ کھانا کھانا یا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔

3/ 4: حرام  رقم سےتعمیر شدہ پراپرٹی کے گناہ سے توبہ اور تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ اوّلا ًتو صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرے، پھر اس پراپرٹی میں جتنا بینک سے ملازمت کی مد میں حاصل ہونے والا حرام پیسہ استعمال کیا ہے، اس کا  حساب لگا کر اتنی ہی حلال رقم   بلانیت ثواب فقرا ءاور مساکین یعنی کسی بھی مستحقِ زکوۃ کو دی جائے، اس کے بعد مذکورہ پراپرٹی اور اس سے حاصل ہونے والے کرایہ کو استعمال کرنے کی گنجائش ہو گی، نیز اسی صورت میں  حرام آمدنی سے بنی ہوئی پراپرٹی کو توڑ کر دوبارہ حلال رقم سے تعمیر کرنا ضروری بھی نہیں ہے۔

5:بینک سے ملازمت کی مد میں حاصل ہونے والی مذکورہ رقم  کسی بھی مستحقِ زکات کو بلانیتِ ثواب دی جاسکتی ہے، لیکن رشتہ داروں میں ان کو دی جاسکتی ہے جن کے لئے سائل کی زکوۃ کی رقم لینا جائز ہے۔

الاشباہ و النظائر میں ہے:

"إذا كان غالب مال المهدي حلالا، فلا بأس بقبول هديته، وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام، وإن كان غالب ماله الحرام لا يقبلها، ولا يأكل إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو استقرضه."

(الاشباہ و النظائر، الفن الاول، النوع الثانی، القاعدۃ الثانیہ: اذا اجتمع الحلال و الحرام غلب الحرام، ص: 96، ط: دار الکتب العلمیہ)

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"قال (ومن غصب عبدا فاستغله ...  (ويتصدق بالغلة) ... أنه حصل بسبب خبيث وهو التصرف في ملك الغير، وما هذا حاله فسبيله التصدق، إذ الفرع يحصل على وصف الأصل والملك المستند ناقص فلا ينعدم به الخبث".

(کتاب الغصب، ج:9، ص:329، ط:دارالفکر)

معارف السنن شرحِ جامع الترمذی (لمولانا محمد یوسف بنوری الحسینی، المتوفیٰ:1977)   میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء...

قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، مسئلۃ فاقد الطهرین،  ج:1، ص:34، ط: ایج ایم سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507100100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں