میرے بینک اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے اور مجھے معلوم نہیں کہ وہ تمام رقم صحیح ہے یا نہیں، کیا اس رقم سے قربانی کا جانور خریدنا درست ہے؟
واضح رہے کہ حرام مال پر قربانی واجب ہی نہیں ہوتی، کیوں کہ حرام مال پر صاحبِ قبضہ کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ مالِ حرام کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر بلاعوض حاصل ہوا ہے تو اسے مالک یا اس کے ورثہ تک پہنچانا لازم ہے،مالک اور ورثہ تک پہنچانا ممکن نہ ہو یا مالِ حرام بالعوض حاصل ہوا ہو تو اسے مستحقِ زکاۃ کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ حرام اور ناپاک مال سے صدقہ قبول نہیں فرماتے؛ اس لیے حرام مال پر قربانی بھی واجب نہیں ہوگی۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ خود غور و فکر کریں اور سوچیں کہ آپ کے بینک اکاؤنٹ میں آپ کی اپنی جمع کردہ رقم کتنی ہے ، اور اس پر حاصل شدہ سود کتنا ہے ، اگر غالب مال حلال کا ہے اور وہ حلال مال نصاب کے بقدر ہے تو اس صورت میں آپ پر قربانی واجب ہوگی اور اس رقم سے آپ قربانی کا جانور خرید سکتے ہیں ۔
الصحيح لمسلم (2/ 703):
"عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيها الناس، إن الله طيب لايقبل إلا طيباً، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحاً، إني بما تعملون عليم} وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم}، ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، يمد يديه إلى السماء، يا رب، يا رب، ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك؟ "
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 291):
" في القنية: لو كان الخبيث نصاباً لايلزمه الزكاة ؛ لأن الكل واجب التصدق عليه؛ فلايفيد إيجاب التصدق ببعضه".
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144411101645
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن