بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام مال سے خریدے ہوئے مکان میں میراث کا حکم


سوال

ایک صاحب آج  سے چالیس سال پہلے سودی بینک میں مینیجر کی جاب کرتے تھے ۔ان کا انتقال ہوگیا، انہوں نے ایک مکان چھوڑا جو بینک کی کمائی سے بنا تھا۔ ورثاء میں ان کی دو بیٹیاں بالغ اور  شادی  شدہ  ہیں، اس مکان کا کیا کریں ؟  وہ اس مکان کو بیچ کر وہ پیسے استعمال کر سکتی ہیں یا نہیں؛ کیوں کہ وہ سود کی کمائی سے بنا ہوا مکان ہے؟ کیا وہ پیسے حلال ہوں گے؟  وہ دونوں مالی طور سے ٹھیک ہیں۔

جواب

صورتِ   مسئولہ میں والد نے جتنی رقم سے مذکورہ مکان خریدا تھا وہ رقم ورثاء کے لیے حلال نہیں ہے اور اس رقم کو صدقہ کرنا لازم ہے اور اس سے زائدحاصل ہونے والی  رقم کے استعمال کی اجازت ہوگی؛ لہذا گھر بیچنے کے بعد تمام ورثاء یا تو اپنی رضامندی سے تقسیم کرنے سے پہلےہی  اتنی رقم صدقہ کر دیں جتنے کا گھر خریدا تھا یا پھر مکمل قیمت آپس میں تقسیم کرنے کے بعد ہر وارث اپنے حصہ میں آنے والی حرام رقم صدقہ کردے ۔ 

نیز  یہ بھی واضح رہے کہ قیمتِ  خرید سے زائد حاصل ہونے والی رقم کے استعمال کی اجازت کے باوجود تقوی اور احتیاط اسی میں ہے کہ اس کو بھی صدقہ  کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

«اكتسب حرامًا و اشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئًا، قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا، و هذا قياس، و قال أبو بكر: كلاهما سواء و لايطيب له، و كذا لو اشترى و لم يقل بهذه الدراهم و أعطى من الدراهم دفع ماله مضاربة لرجل جاهل جاز أخذ ربحه ما لم يعلم أنه اكتسب الحرام.

(قوله: اكتسب حرامًا إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالًا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ."

(کتاب البیوع باب المتفرقات ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۳۵،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"«و في حظر الأشباه: الحرمة تتعدد»مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة.

مطلب فيمن ورث مالًا حرامًا

(قوله: إلا في حق الوارث إلخ) أي فإنه إذا علم أن كسب مورثه حرام يحل له، لكن إذا علم المالك بعينه فلا شك في حرمته ووجوب رده عليه، وهذا معنى قوله وقيده في الظهيرية إلخ، وفي منية المفتي: مات رجل و يعلم الوارث أن أباه كان يكسب من حيث لايحل و لكن لايعلم الطلب بعينه ليرد عليه حل له الإرث و الأفضل أن يتورع و يتصدق بنية خصماء أبيه. اهـ و كذا لايحل إذا علم عين الغصب مثلا وإن لم يعلم مالكه."

(کتاب البیوع باب البیع الفاسد ج نمبر  ۵ص نمبر ۹۹،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں