بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام مال سے بنائے گھر یا لباس میں نماز


سوال

 جس گھر میں حرام کی کمائی کا پیسہ لگا ہوا ہو تو کیا اس گھر میں نماز ہو جاتی ہے؟ یا کپڑوں میں حرام کی کمائی کا پیسا خرچ ہوا ہو تو کیا اس میں نماز ہو جاتی ہے ؟

جواب

واضح  رہے کہ اگر کسی کی ملکیت میں حرام مال آجائے تو اس پر شرعا لازم ہوتا ہے کہ جس شخص سے حرام کمایا ہو، اسے لوٹادے، اور اگر لوٹانا ممکن نہ ہو، تو ثواب کی نیت کے بغیر ایسے مال کو صدقہ کردے،  اپنے استعمال میں لانے کی شرعا اجازت نہیں ہوتی، پس اگر کسی نے حرام مال سے کوئی جائیداد یا لباس وغیرہ بنالیا ہو، تو جب تک  حرام مال کی مقدار صدقہ نہ کردے، اس وقت تک اس چیز سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوتا، لہذا  صورت مسئولہ میں حرام مال سے گھر یا لباس بنانے والے شخص پر لازم ہوگا کہ حرام مال کی مقدار رقم جلد از جلد یکمشت یا قسطوں میں ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردے، رہی بات نماز کی تو ایسے گھر میں یا ایسے لباس میں نماز  کراہت کے ساتھ  ادا ہوجائے گی، یعنی ذمہ سے ساقط ہوجائے گی، واجب الاعادہ نہ ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي المنتقى إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالا قال إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم يريد بقوله على شرط إن شرطوا لها في أوله مالا بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء وهذا لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية فكان الأخذ معصية والسبيل في المعاصي ردها وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه وبالتصدق به إن لم يعرفه ليصل إليه نفع ماله إن كان لا يصل إليه عين ماله أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصية والدفع حصل من المالك برضاه فيكون له ويكون حلالا له."

( الكراهية، الباب الخامس عشر في الكسب، ٥ / ٣٥٩، ط: دار الفكر )

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاحمیں ہے:

"والثوب الحرير والمغصوب وأرض الغير تصح فيها الصلاة مع الكراهة.

تكره الصلاة في الثوب الحرير والثوب المغصوب وإن صحت والثواب إلى الله تعالى."

( كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة و أركانها، ص: ٢١١، ط: دار الكتب العلمية )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الصلاة في أرض مغصوبة جائزة ولكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين الله تعالى يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب. كذا في مختار الفتاوى الصلاة جائزة في جميع ذلك لاستجماع شرائطها وأركانها وتعاد على وجه غير مكروه وهو الحكم في كل صلاة أديت مع الكراهة. كذا في الهداية فإن كانت تلك الكراهة كراهة تحريم تجب الإعادة أو تنزيه تستحب فإن الكراهة التحريمية في رتبة الواجب كذا في فتح القدير."

(كتاب الصلاة، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره، ١ / ١٠٩، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502100389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں