میں نے ایک پلاٹ خریدا ہے ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کا ۔اور میرے پاس دس ہزار روپے کم پڑ رہے ہیں تو میں نے ایک صاحب سے روپے مانگے تو اس نے جواب دیا کہ میرے پاس روپے ہیں ناجائز ہیں، کیا میں ان سے ناجائز روپے پلاٹ کے لیے لے سکتا ہوں؟ اس کو میں بعد میں دے دوں گا یعنی دو ماہ بعد تو میرے لیے جائز ہیں یا نہیں؟
جس شخص کے پاس حرام مال ہو اس پر لازم ہوتاہے کہ اس مال کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردے، بشرطیکہ اصل مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو، اس مال کو اپنے استعمال میں لانا، یا کسی کو قرض دینا، یا کوئی اور تصرف کرنا شرعًا جائز نہیں ہوتا، نیز مذکورہ شخص جب وہی حرام رقم آپ کو قرض دے رہا ہے تو صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے یہ رقم بطور قرض لینا جائز نہیں۔
المبسوط للسرخسي میں ہے:
"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق". ( ١٢ / ١٧٢)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه".(٥ / ٩٩)
فتاوی شامی میں ہے:
"لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ اهـ."
( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٨٥، ط: دار الفكر)
منحة الخالق لابن العابدين میں ہے:
"وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَإِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."
(منحة علي البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210201274
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن