بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

حرام مال کا استعمال کرنا اوراس سے حاصل شدہ منافع کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کی کمائی صحیح نہیں ہے اور میں ان کے پیسوں سے بائک میں پیٹرول ڈلواتا ہوں کیا میں بائکیا چلا سکتا ہوں میری کمائی حلال ہوگی؟

جواب

حرام کمائی سے حاصل کی ہوئی رقم سے خریدوفروخت کرنا اور ذاتی ضروریات میں صرف کرنا جائز نہیں۔

لہٰذاصورتِ مسئولہ میں اگر والد صاحب کی کمائی مکمل حرام ہویا پھرحلال حرام مخلوط ہواس طور پر کہ تمییز ممکن نہ ہوکہ کونسا حلال ہے کونساحرام اور اکثر حصہ حرام کا ہو توان دو صورتوں میں والد صاحب کی  کمائی سےپیٹرول ڈلوانابالکل جائز نہیں،البتہ اگر غالب  حصہ حلال ہو بعض حصہ حرام ہو توایسی صورت میں پیٹرول ڈلواناجائز ہے نیز ان تمام صورتوں میں اس کمائی سے پیٹرول ڈلواکربائیکیا کے ذریعہ کوئی حلال مال کمایا ہو تو وہ کمائی حلال ہوگی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

" ‌أهدى ‌إلى ‌رجل ‌شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."

(كتاب الكراهية،الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات،ج:5، ص:342، ط:دار الفکر)

المحیط البرھانی میں ہے:

"وفي عيون المسائل: رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه۔"

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية،الفصل السابع عشر في الهدايا والضيافات، ج:5، ص:368، ط:دار الکتب العلمیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا ‌يطيب ‌في ‌الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام."

(‌‌‌‌کتاب البیوع،باب المتفرقات من ابوابها،مطلب إذا اكتسب حراماثم اشترى فهوعلى خمسةأوجه،ج:5،ص:235،ط:سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"جس قدر مال بطریق حرام کمایا ، اس کی واپسی لازم ہے، اگر وہ شخص موجود نہ ہو جس سے مثلا مال حرام( مثلا رشوت یا غصب ) لیا ہو، مر گیا ہو تو اس کے ورثاء کو دیا جائے ۔ ورثاء بھی موجود نہ ہوں، یا کوشش کے باوجود ان کا علم نہ ہو سکے تو غر یوں محتاجوں کو صدقہ کر دیا جاۓ ،  لیکن اس مال کے ذریعہ دوسرا حلال مال کمایا گیا تو اس کو حرام نہیں کیا جائے گا۔کذا فی رد المحتار۔"

(کتاب  الحظر و الاباحۃ، باب المال الحرام و مصرفہ، ج:18، ص:408، ط:ادارۃ الفاروق)

تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

"رشوت ، سود، جوا، بھتہ ، چوری اور ڈاکے کی رقم اور دیگر حرام ذرائع سے حاصل کی ہوئی رقم سے خرید و فروخت کرنا اور ذاتی ضروریات میں صرف کرنا جائز نہیں ہے ، ایسی رقم کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اصل مالک کو واپس کر دی جائے ، اگر وہ زندہ نہیں ہے تو اس کے وارثوں کو واپس کر دے اور اگر اصل مالک یا اس کے وارثوں کا علم نہیں ہے تو ثواب کی نیت کے بغیر اصل مالکان کی طرف سے مستحق زکاۃ لوگوں کو صدقہ کر دے ورنہ آخرت میں سخت عذاب ہوگا جو برداشت کرنا ممکن نہیں ہوگا "۔ 

(عنوان"حرام رقم سے خرید و فروخت کرنا"،ج:3،ص:187،ط:بیت العمار)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں