بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام لعینہ کا حکم اور اختلاف


سوال

 حرام کی ایک قسم اکثر علماء بتاتے ہیں حرام لغیرہ ،مجھے یہ جاننا ہے  کہ  اس کے احکام و مسائل کیا ہیں؟ اور دوسری بات یہ کہ وہ اس میں جمہور اور ظاہریہ کا اختلاف بتاتے ہیں، کن حرام لغیرہ مسائل میں جمہوریہ اور ظاہریہ کا اختلاف ہے؟اگر آپ تفصیلی جواب عنایت فرما دیں گے تو میں انتہائی شکر گزار ہوں گا۔

جواب

واضح رہے کہ قرآن اور حدیث میں جب کسی فعل کے بارے میں ممانعت وارد ہوتی ہےتو وہ اصول فقہ کی اصطلاح میں "نهي" کہلاتی ہے۔ یہ"نهي" کے الفاظ اس فعل کے قبیح / ناپسند ہونے کو ثابت کرتے ہیں  اور اس قبیح اور نا پسند ہونے میں تفصیل یہ ہے کہ بعض افعال قبیح لعینہ ہوں گے اور بعض افعال قبیح لغیرہ ہوں گے:

قبیح لعینہ:وہ افعال جن کی ذات ہی قبیح ہو، مثلا اللہ کا انکار۔

قبیح لغیرہ: وہ افعال جن کی ذات قبیح نہ ہو ،لیکن ان کے اوصاف کی وجہ وہ قبیح ہوجائیں، مثلا عید کے دن کا روزہ۔

دونوں قسم کے افعال (قبیح لعینہ و قبیح لغیرہ)میں سے  بعض حرام  ہوں گے، بعض مکروہِ تحریمی ہوں گے اور بعض مکروہِ تنزیہی ہوں گے،  حکم ان تمام افعال (قبیح لعینہ یا قبیح لغیرہ) کا یہ ہے کہ جب اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ممانعت وارد ہوگئی تو مسلمان کے ذمہ ہے کہ وہ ان افعال کو ترک کردے،بنیادی حکم کے اعتبار سے ان دونوں (لعینہ اور لغیرہ) میں کوئی فرق نہیں ہے ،لہذا حرام لعینہ اور حرام لغیرہ دونوں حکم میں برابر ہیں اور دونوں کا ترک کرنا واجب ہے۔ باقی چند جزئی احکام میں حرام لعینہ اور لغیرہ میں فقہاء احناف  نے  فرق کیاہے ،اسی طرح احناف اور شوافع کے درمیان بھی چند جزئی مسائل میں اختلاف ہے، اس کی تفصیل اصولِ فقہ کی کتب میں مطالعہ کی جاسکتی ہے۔ (ماخوذ  ازنور الانوار ص نمبر  ۱۷۰، ط: مکتبۃ البشری)، باقی جمہور اور  ظاہریہ کا اختلاف احناف کی اصول فقہ کی کتب میں نہ مل سکا ، فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101798

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں