بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کھانے والے شخص سے تعلق رکھنے اور ان کا کھانا کھانے والے کا مسجد میں آنا اور عبادات کرنا


سوال

جو نماز سودخور سے تعلق رکھتے ہوں،  اس کےگھرکھاناکھاتےہوں ، ان کا مسجد میں آنا اورنمازپڑھناتلاوت کرناکیساہے؟ آیا ان کے یہ نیک اعمال مقبول ہیں یا مردود؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر   کوئی شخص سودی لین دین کرتا ہو اور اس کی آمدنی کا واحد ذریعہ  یہی ہو اور وہ اسی  حرام رقم سے دعوت کرے یا  ہدیہ دے، یا اس کی آمدن حرام و حلال سے مخلوط ہو اور حرام غالب ہو  تو اس کی دعوت کا کھانا کھانا یا  ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔  لیکن اگر کسی شخص کی آمدنی حلال اور حرام دونوں ہے  اور وہ حلال رقم سے کھانا کھلاتا ہے، یا اس کی آمدنی تو حرام ہی ہے لیکن وہ کسی اور سے حلال رقم قرض لے کر کھانا کھلاتا ہے،  یا اس کی حلال اور حرام آمدنی دونوں مخلوط ہوں لیکن حلال کی آمدنی غالب ہو تو ان سب صورتوں میں اس کی دعوت کا کھانا کھانا ناجائز نہیں ہوگا۔

جہاں تک ایسے لوگوں سے تعلق کی بات ہے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر  اس کے  ساتھ  تعلق رکھنے سے مقصود اس کی اصلاح ہو اور   یہ امید ہو کہ   تعلقات رکھنے کی صورت میں حلال کی ترغیب اور حرام سے بچنے کی تلقین کرنے سے وہ حرام سے بچ جائے گا تو یہ عین مطلوب اور مقصود ہے۔

اگر اس شخص  کی اصلاح اس میں ہونے کی امید  ہو کہ اگر اس کے ساتھ  تعلقات ختم کردیے  جائیں تو   یہ اس سے حرام کمائی سے بچ جائے گا،  اور یہ اس کی ترغیب کا باعث بنے گا تو اس کے ساتھ تعلق ختم کرنا بھی جائز ہے، الغرض اپنے حالات، ماحول ،اور تعلق کو دیکھتے ہوئے ان دونوں صورتوں میں سے  مناسب صورت پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

لہذا  حرام آمدنی  والے لوگوں سے تعلق رکھنے والوں  کے بارے میں مطلقًا ایک رائے قائم نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کرنی چاہیے، اور ایسے لوگوں کا مسجد میں آنا اور عبادت کرنا بھی درست ہے، البتہ ان کو مذکورہ بالا درست مسئلہ سمجھادینا چاہیے۔

     عارضۃ الاحوذی میں ہے:

"وأما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجره حتى  ينزع  عن فعله وعقده  فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلة حتى صحت توبتهم عند الله فأعلمه فعاد إليهم".

(عارضۃ الاحوذی لابن العربی  المالکی (8/116) ابواب البر والصلۃ،ط: دارالکتب العلمیہ)

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

(5 / 367، الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، ط: دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں