بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کاروبار کو چھوڑنا اور بھائی کے لیے ایصال ثواب کرنا


سوال

 مجھے ایک انتہائی دردناک مسئلہ درپیش ہے قریب ہے کہ میرا دل پھٹ جائے. اس لیے مجھے جلدی جواب دیجیے گا.. میرا 5 دن پہلے ایک جوان بھائی 24 سال کی عمر میں اچانک حرکت قلب بند ہونے سے اس دنیا سے چلا گیا ہے. یہ تو اللہ کی مرضی تھی اس نے جس کو پیدا کیا ہے وفات بھی دیتا ہے. میرے انتہائی دکھ کی وجہ ایک ایسا عمل ہے جس کا مجھے حد سے زیادہ افسوس ہے اور میں توبہ کر چکا ہوں.. کوئی دو سال پہلے مجھے ایک آن لائن شرط لگانے والی ایپ کا پتہ چلا گھر کے حالات زیادہ ٹھیک نہیں تھے تو میں نے وہاں سے پیسے کمانے شروع کر دیے بعد میں میرا بھائی بھی مجھے دیکھا دیکھی یہ ہی کرنے لگا..ہم یہ کہتے تھے کہ جیسے ہی حالات ٹھیک ہوں گے ہم توبہ کر کے یہ کام چھوڑ دیں گے لیکن میرے بھائی کی اچانک موت نے توبہ کا موقع ہی نہیں دیا.. اب میں انتہا کا پریشان اور کرب میں ہوں.. بھائی کے جانے کا دکھ الگ ہے اور یہ والا دکھ الگ.. قریب ہے کہ میرا دل پھٹ جائے.. میں ازالہ کرنا چاہتا ہوں تا کہ میرے بھائی پر بوجھ نہ  پڑے لہذا میری راہنمائی کر دیں.

جواب

صورت مسئولہ میں آپ اپنے بھائی کے لئے استغفار کریں اور ان کے لیےایصال ثواب کریں جو بھی نیک عمل کرسکتے ہیں کریں۔ ان کی طرف سے غرباء اور مساکین پر صدقہ کیا جائے،  بہتر ہے کہ ان کی طرف سے ایسا صدقہ یا نیک عمل کیا جائے جس کا اجر جاری رہے، مثلًا ان کے ایصالِ ثواب کے لیے کنواں کھدوا دیں، مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں  حصہ لے لیں، مسجد یا مدرسے میں قرآن شریف یا دینی کتابیں وقف کردیں، یا پھل دار سایہ دار درخت لگادیں، وغیرہ وغیرہ۔

باقی جیسا کہ آپ نے سوال میں لکھا  کہ آپ خود بھی توبہ کر چکے ہیں تو توبہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جس گناہ میں آدمی مبتلا ہو اس سے آدمی اپنے کو علیحدہ کر لے لہذا اگر آپ مذکورہ شرط والا کاروبار کرتے تھے اوراس سے آمدنی حاصل کرتے تھے تو اس کاروبار سے  علیحدہ ہو جائیں اور جو آمدنی آپ نے اس سے کمائی ہے اس کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کر دیں یہ توبہ کی تکمیل کا حصہ ہے۔ 

ذیل میں کچھ احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن میں   مرحومین کی طرف سے ایصالِ ثواب کے لیے مختلف چیزوں کا تذکرہ آیا ہے:

1- حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے لیے کیا  صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانی،  انہوں نے ایک کنواں کھدوایا، اور  کہا: "یہ  (کنواں) سعد کی والدہ کے لیے ہے"۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"و عن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي."

(کتاب الزکاۃ ، باب فضل الصدقۃ ، جلد۱، ص:۶۹۷، المکتب الاسلامی بیروت)

اس حدیث میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے والدہ کے لیے پانی کے صدقہ کا ثواب پہنچانے کا ذکر فرمایا۔

2- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا : میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا: ہاں! تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، أنّ رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»."

(کتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات إلى الميت، جلد۳، ص:۱۲۵۴، ط: دار احیا التراث العربی)

اس حدیث میں والدین کی طرف سے مطلق صدقے کا ذکر فرمایا ہے۔

3- حضر ت ابواُسید مالک بن ربیعہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس موجود تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سےدریافت کیا:یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لیے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔

سنن أبی داود میں ہے:

"عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما»."

( باب في بر الوالدين،جلد۷، ص:۴۵۶، ط: دار الرسالۃ العالمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100766

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں