بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کمانے والے کی دعوت کرنا / حرام کمانے والے کی دعوت میں شرکت کرنا / حرام آمدنی والے شخص کو قربانی میں شریک کرنا / حرام کھانے والے کا جنازہ میں امام بننا


سوال

1۔ کیا حرام کھانے والا شخص (  جس کا پتہ ہوکہ اس کی کمائی حرام کی ہے ) کو  کسی بھی قسم کی دعوت میں بلایا جا سکتا ہے ؟

2۔ حرام کمانے والے شخص کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ؟

3۔کیا حرام کمانے والا شخص ( جس کی کمائی کا پتہ ہو کہ حرام کی ہے)  کوعید  کے موقع پر قربانی کے جانور میں حصہ دیا جا سکتا ہے ؟

4۔ حرام کمانے اور کھانے والا امام مسجد جنازہ پڑھائے تو  اس کے جنازے کی حیثیت کیا ہے ؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں  اگر کوئی شخص واقعۃً  اعلانیہ طور پر حرام کمائی کرتا ہو، اور حرام کمائی کا راستہ ترک کرنے کو تیار نہ ہو، تو ایسا شخص فاسق ہے، جس سےبلا ضرورت  میل جول رکھنا، اور اسے دعوت میں مدعو کرنا مکروہ ہے، تاہم اگر کسی کے بارے میں حرام کمائی کا محض شبہ ہو تو ایسی صورت میں خود کو بدگمانی سے بچانا چاہئے، اور حسن ظن رکھنا چاہیئے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأفضل أن ينفق على نفسه، ثم على عياله وما فضل يتصدق، ولا يعطي الفاسق أكثر من قوته، كذا في التتارخانية."

( كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ٥ / ٣٤٥، ط: دار الفكر )

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)  میں ہے:

"ويكره السلام على الفاسق لو معلنًا وإلا لا.

 (قوله: لو معلنًا) تخصيص لما قدمه عن العيني؛ وفي فصول العلامي: ولايسلم على الشيخ المازح الكذاب واللاغي؛ ولا على من يسبّ الناس أو ينظر وجوه الأجنبيات، ولا على الفاسق المعلن، ولا على من يغني أو يطير الحمام ما لم تعرف توبتهم، ويسلم على قوم في معصية وعلى من يلعب بالشطرنج ناويًا أن يشغلهم عما هم فيه عند أبي حنيفة، وكره عندهما تحقيرًا لهم".

( كتاب الحظر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٤١٥، ط: دار الفكر - بيروت)

2۔  مسئولہ صورت میں اگر مذکورہ شخص کی کل کمائی حرام کی ہو، یا اکثرکمائی حرام کی ہو، اور اس نے اپنے اس حرام مال ہی سے دعوت کا انتظام کیا ہو، تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص کی دعوت کا کھانا جائز نہ ہوگا، البتہ اگر اس نے دعوت کا انتظام حلال مال سے کیا ہو، تو اس صورت میں کھانا کھانا جائز ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع. ... لا يجيب دعوة الفاسق المعلن ليعلم أنه غير راض بفسقه، وكذا دعوة من كان غالب ماله من حرام ما لم يخبر أنه حلال وبالعكس يجيب ما لم يتبين عنده أنه حرام، كذا في التمرتاشي. ... آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

 ( كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، ٥ / ٣٤٢ - ٣٤٣، ط: دار الفكر)

3۔ قربانی میں اگرکوئی حرام آمدن والا حصہ دار شامل ہو، مثلاً: بینک کا کوئی ملازم یا انشورنس کا کاروبار کرنے والا، سودی کاروبار کرنے والا شریک ہو جس کا ذریعہ آمدنی صرف حرام ہو، یا اس کی غالب آمدنی حرام ہو تو شرکاء میں سے کسی کی بھی قربانی نہیں ہو گی، اس لیے حرام آمدن والے کو قربانی میں شریک نہ کیا جائے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"ولو كان أحد الشركاء ذميا كتابيا أو غير كتابي وهو يريد اللحم أو أراد القربة في دينه - لم يجزهم عندنا؛ لأن الكافر لا تتحقق منه القربة فكانت نيته ملحقة بالعدم فكان مريدا للحم، والمسلم لو أراد اللحم لا يجوز عندنا فالكافر أولى إذا كان أحدهم عبدا أو مدبرا ويريد الأضحية؛ لأن نيته باطلة؛ لأنه ليس من أهل هذه القربة فكان نصيبه لحما فيمتنع الجواز أصلا ."

( كتاب التضحية، فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية، ٥ / ٧٢، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال في البزازية: ولو نوى في المال الخبيث الذي وجبت صدقته أن يقع عن الزكاة وقع عنها اهـ أي نوى في الذي وجب التصدق به لجهل أربابه، وفيه تقييد لقول الظهيرية: رجل دفع إلى فقير من المال الحرام شيئا يرجو به الثواب يكفر، ولو علم الفقير بذلك فدعا له وأمن المعطي كفرا جميعا."

( كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم، ٢ / ٢٩٢، ط: دار الفكر)

4 ۔ جنازہ کی نماز ادا ہوجائے گی، اعادہ لازم نہ ہوگا، البتہ محض شک کی بنیاد پر کسی کے بارے میں ( خواہ وہ عام آدمی ہو یا امام مسجد)  بدگمانی رکھنا جائز نہیں،  جس سے اجتناب ضروری ہے۔

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"وأما الشك بين كونه فاسقا أو صالحا فلا اعتبار له بل يظن بالمسلمين خيرا ط. "

( كتاب الحظر و الإباحة، فصل في البيع، ٦ / ٤١٢، ط: دار الفكر - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں