بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کمائی کا مصرف


سوال

 مجھے آپ سے یہ معلوم کرنا ہے میں نے یوٹیوب چینل شروع کیا تھا اور اس سے مجھے پیسہ بھی آنا شروع ہو گیا تھا ، لیکن جب مجھے معلوم ہوا کے یوٹیوب کی کمائی جائز نہیں ہے، اس کے بعد میں نے ویڈیو بنانا بند کر دیں۔ اب مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا میں ایسا کر سکتا ہوں کہ یوٹیوب کے پیسے سے غریبوں کے لیے ہاسپٹل یا اسکول بنوا سکتا ہوں جس میں غریبوں کے لئے فری دوائی  فری پڑھائی ہو ۔

جواب

واضح رہے کہ اس نیت سے  حرام کمانا کہ اس سے  غربیوں کی مدد کی جائے شرعا جائز نہیں ہے ۔اور اگر پہلے کی ناجائز آمدنی رکھی ہوئی ہے تو اس  کا  حکم یہ ہے کہ   اس  رقم  کو کسی مستحق زکات شخص کو  ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیا جائے ،لہذا اس رقم سے  ہاسپٹل / اسکول بنوانا  یا ان کو علاج / پڑھائی کی سہولت فراہم کرنا  جائز نہیں،شریعت مطہرہ نے ہمیں غیر شرعی راستہ اختیار کر کے غرباء و مساکین کی مدد کرنا یا کوئی بھی نیک کام کرنے کا مکلف نہیں بنایا، البتہ  پہلے سے جو رقم موجود ہے اس رقم سے دوائیاں خرید کر یا کتابیں خرید کر مسلمان فقیر کو مالک بناکر دی جاسکتی ہیں ۔

 بذل المجہودميں ہے:

"فالحاصل أن التصدق من مال حرام غير مقبول، حتى قال بعض علمائنا: من تصدق بمال حرام يرجو الثواب كفر.قلت: فإن قيل: صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات، أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء، فهذا القول منهم يخالف الحديث المذكور، فإن الحديث دال على حرمة التصدق بالمال الخبيث، وقد نص الله تعالى في كتابه: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ} (1) الآية، وقولهم بوجوب التصدق معارض بالحديث والآية، فما وجه التوفيق بينهما؟

قلنا: الآية والحديث يدلان على حرمة التصدق بالمال الحرام لأجل تحصيل الأجر والثواب، وقد أشير إليه في الحديث بقوله: "لا يقبل الله" فإذا تصدق بالمال الحرام يريد القبول والأجر يحرم عليه ذلك، وأما إذا كان عند رجل مال خبيث، فإما إن ملكه بعقد فاسد، أو حصل له بغير عقد، ولا يمكنه أن يردّه إلى مالكه، ويريد أن يدفع مظلمته عن نفسه، فليس له حيلة إلَّا أن يدفعه إلى الفقراء, لأنه لو أنفق على نفسه فقد استحكم ما ارتكبه من الفعل الحرام."

 (کتاب الطہارۃ، باب فرض الوضوء:ج:1ص:359: تحت رقم الحدیث:59:ط:بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100954

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں