بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کمائی کا حکم


سوال

میں گزشتہ چند سال سے آن لائن کام کررہاہوں ،ہمارا سارا کام ہی غبارآلود تھا اس طور پر کہ ہم کسی بھی ہول سیل والے سے رابطہ کرکے یہ ڈیل کرتے تھے کہ آپ ہمیں اپنی پراڈکٹ کے کم سے کم  ریٹ دیں، ہم اپنی کمپنی کے نام سے آپ کی پراڈکٹ سیل کرکے اپنا منافع رکھیں گے اور جب ہمیں کوئی آڈر ملاکرے گا توآپ( ہول سیل ڈیلر )ہمارے دیئے گئے ایڈریس پر وہ چیز روانہ کریں گے(اس طور پر کہ نہ ہم اور نہ ہی ہمارا کوئی نمائندہ اس پر قبضہ کرتا تھا) اور اپنی چیز کی طے شدہ رقم ہم سے وصول کریں گے باقی ہم جتنے کی سیل کریں گے وہ ہمارا منافع ہوگا ان چند سالوں میں جو نفع کمایا اس کا کوئی حساب بھی میرے پاس تحریر نہیں ہے اور اس نفع کی کوئی رقم بھی موجود نہیں ہے تو ان چند سالوں میں کی گئی کمائی کےکفارہ کا میرے لیے کیا حکم ہے؟

ازراہ کرم شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا مذکورہ طریقہ پر کاروبار کرنا ناجائز تھا؛کیوں کہ اس میں مبیع (خریدی ہوئی چیز)پر قبضہ سے پہلے اس کو آگے بیچنا لازم آتا تھا جو کہ ناجائز ہے،لہٰذا زیرِنظر مسئلہ میں سائل نے گذشتہ چند سالوں میں لاعلمی سے جوغیر شرعی طریقے سے آن لائن کام کیا اور نفع کمایا اور اب احساس ہونے کے بعد اس کی تلافی کرنا چاہتاہے تو پہلے تو اللہ  تعالی ٰ سے اپنے اس عمل پر معافی مانگیں ،پھراس دوران جتنا نفع کمایا ہے وہ بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرے،اگر نفع کی مقدار حتمی طور پر معلوم نہیں ہےتو سائل پر لازم ہے کہ   مذکورہ طریقہ پر کمائی گئی رقم کی مقدار کے بارے میں خوب غور وفکر کرے ،غور وفکر کے بعد جس رقم پر اس کا غالب گمان ہوجائے  کہ اس سے زیادہ رقم کسی صورت نہیں ہوسکتی ،اتنی رقم  مستحق زکوٰۃ لوگوں پر  ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"(وأما) بيان ما يتعلق بهما من الأحكام(فمنها) : أنه لا يجوز التصرف في المبيع المنقول قبل القبض بالإجماع، وفي العقار اختلاف،(ومنها) أنه لا يجوز بيع ما ليس عند البائع إلا السلم خاصة لما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم."

(کتاب البیوع، فصل في حكم البيع،5/253،234،ط:دارالکتب العلمیۃ)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق."

(كتاب  الغصب ،3/61،ط:دارالفكر)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم ‌أرباب ‌الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه۔۔۔۔۔۔ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله."

(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما،5/99،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں