بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کمائی والے کا چندہ مسجد کے لیے لینے کا حکم


سوال

ہمارے محلے کی مسجد جو کہ زیرِ تعمیر ہے، ایک صاحب نے جوکہ حجام (نائی) ہے، اس نے مسجد کے محراب کے لیے مصلی خریدا ہے، اس حجام کی کمائی حلال و حرام کا مجموعہ ہے، کیوں کہ وہ جائز و ناجائز سب کام کرتا ہے، اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس نے یہ مصلی حلال کی کمائی سے خریدا ہے یا مشترک کمائی سے، دریافت یہ کرنا ہے کہ:

1) جس آدمی کی کمائی حلال و حرام کا مجموعہ ہو اور حلال و حرام میں تمییز بھی ممکن نہ ہو تو  اس کی کمائی سے مسجد کے لیے چندہ لینے کا  کیا حکم ہے؟

2)  مذکورہ صورت میں نائی نے جو مصلی محراب کے لیے خریدا ہے، جس پر صرف امام ہی نماز پڑھتا ہے تو امام کے لیے ایسے مصلی پر کھڑے ہو کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ جب کہ مصلی تبدیل کرنے کی صورت میں اس آدمی کی دل شکنی بھی ہوتی ہو۔

3) اگر جائز نہیں ہے تو کیا اس طریقے سے جائز ہوسکتا ہے کہ اس مصلی پر دوسرا مصلی بچھایا جائے اور اسی پر نماز پڑھی یا پڑھائی جائے؟

جواب

1)صورتِ مسئولہ میں جس شخص کی کمائی حلال و حرام کا مجموعہ ہو اور تمییز بھی ممکن نہ ہو تو اگر اس کی کمائی میں حلال غالب ہو تو اس صورت میں اس کا چندہ مسجد کے لیے لینا شرعاً جائز ہوگا، تاہم اگر یہ معلوم ہوجائے کہ چندہ حرام کمائی میں سے دے رہا ہے تو چندہ لینا جائز نہیں،  اور اگر اس کی کمائی میں حرام غالب ہو تو اس صورت میں اس کا چندہ مسجد کے لیے لینا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر  یہ معلوم ہوجائے کہ یہ حلال کمائی میں سے چندہ دے رہا ہے تو اس صورت میں اس کا چندہ مسجد کے لیے لینا جائز ہوگا۔

2) جس نائی نے مسجد کے لیے مصلی خرید کر دیا ہے، اگر یہ معلوم نہیں ہے کہ اس نے یہ مصلی اپنی حلال کمائی سے خریدا ہے یا حرام کمائی سے تو اس صورت میں اگر اس کی کمائی میں حلال غالب ہے تو یہ مصلی مسجد میں استعمال کرنا درست ہے اور اگر اس کی کمائی میں حرام غالب ہے تو پھر یہ مصلی مسجد کے لیے لینا جائز نہیں، اس مصلی پر نماز ادا کرنا مکروہ ہے، لہذا اگر امام اس مصلی پر نماز ادا کرے گا تو اس کی نماز مکروہ ہونے کی وجہ سے مقتدیوں کی نماز بھی مکروہ ہوجائے گی،لیکن اگر  معلوم ہوجائے کہ مصلی حلال کمائی سے خریدا گیا ہے یا حرام کمائی سے تو پھر اسی کے مطابق حکم ہوگا۔

3) اگر غالب گمان (یا یقین) ہے کہ مذکورہ نائی کی کمائی میں حرام غالب ہے یا یہ مصلی حرام کمائی سے خریدا گیا ہے تو ایسے مصلی کو مسجد میں رکھنا ہی جائز نہیں ہے، اس لیے اگر اس مصلی پر دوسرا مصلی بچھا کربھی اس پر نماز پڑھی جائے تب بھی اس مصلی کو مسجد میں رکھنے کی وجہ سے گناہ ہوگا، اس لیے اس مصلی کو مسجد سے نکالنا ضروری ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط۔"

(فتاوی ہندیہ، ج: 5، کتاب الکراہیۃ، الباب الثانی عشر فی الھدایا و الضیافات، ص: 343، ط: مکتبہ رشیدیہ)

الاشباہ و النظائر میں ہے:

"إذا كان غالب مال المهدي حلالا، فلا بأس بقبول هديته، وأكل ماله ما لم يتبين أنه من حرام، وإن كان غالب ماله الحرام لا يقبلها، ولا يأكل إلا إذا قال: إنه حلال ورثه أو استقرضه۔"

(الاشباہ و النظائر، الفن الاول، النوع الثانی، القاعدۃ الثانیہ: اذا اجتمع الحلال و الحرام غلب الحرام، ص: 96، ط: دار الکتب العلمیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لو بماله الحلال) قال تاج الشريعة: أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله۔"

(فتاوی شامی، ج: 1، کتاب الصلوۃ، فروع افضل المساجد، ص: 658، ط: ایچ ایم سعید)

امداد الفتاوی میں ہے:

اس (مسجد) کی مرمت میں مالِ حرام لگایا گیا، سو ۔۔۔اگر فرش میں بھی لگایا گیا ہے تو اس پر نماز پڑھنے سے استعمال مالِ حرام کا لازم آتا ہے اور مالِ حرام سے انتفاع بالاجماع حرام ہے اس لیے اس پر نماز پڑھنا ممنوع ہوگا۔

(امداد الفتاوی، ج: 2، احکام المسجد، ص: 645، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100619

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں