بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کام کے لیے اپنا مکان کرایہ پر دینا


سوال

حرام کام کے لیے اپنا مکان دےکر اجرت لینا کیسا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جانتے ہوئے حرام کام کے لیے اپنا مکان اجرت پر دینا  اور اس کی اجرت لیناگناہ کے کام میں تعاون کی وجہ سے شرعا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا استأجر الذمي من المسلم بيتا ليبيع فيه الخمر جاز عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - خلافا لهما. كذا في المضمرات."

(کتاب الاجارۃ،الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة،ج4،ص449،ط؛دار الفکر)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

فلمی کام کرنے والوں کو ہوٹل کے کمرے کرایہ پر دینا:

"(الجواب)جانتے ہوئے ایسے بدکاروں کو کمرہ کرایہ پر دینا اعانت علی المعصیت کی وجہ سے درست نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم"

(کتاب الاجارۃ،ج9،ص292،ط؛دار الاشاعت)

فتاوی مفتی محمود میں ہے:

"بینک والوں کو بلڈنگ کرایہ پر دینا طوائفوں کو مکان کرایہ پر دینا

"ان مسائل میں اختلاف ہے۔ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ اجارہ جائز ہے اور صاحبین کے نزدیک اجارہ ناجائز اور اجرت لینا درست نہیں۔اس لیے بلاضرورت شدیدہ اس میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔اگرچہ نفس عقد جائز ہے مگر بوجہ اعانت علی المعصیۃ اس میں معاملہ میں احتیاط کرنا لازم ہے۔إذا استأجر رجلا ليحمل له خمرا فله الأجر في قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وقال أبو يوسف ومحمد - رحمهما الله تعالى - لا أجر له ۔(عالمگیری ) مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نور اللہ مرقدہ فتاوی رشیدیہ ص502 میں لکھتے ہیں:ایسے لوگوں کو کرایہ پر مکان دینا درست نہیں۔بقول صاحبین کے اور امام صاحب کے قول سے جواز معلوم ہوتا ہے کہ مکان تو کرایہ پر دینا گناہ نہیں گناہ بفعل اختیاری مستاجر کے ہے۔مگر فتوی اسی پر ہے کہ نہ دیوے کہ اعانت گناہ کی ہے۔ولاتعاونوا على الاثم والعدوان(فتاوی رشیدیہ)"

(اجارہ کا بیان،ج9،ص337،ط؛جمعیۃ پبلیکیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں