بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم


سوال

 کیا غیرت کے نام پر قتل کرنا جائز ہے  جب کہ صرف شک کا معاملہ ہو؟ اور جب بات بالکل یقینی ہو کہ حرام کام میں مبتلاہو اور اپنی  آنکھوں سے دیکھے تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟ کیا اس صورت میں خود دیکھنے والا یا گھر والے اس کو قتل کرسکتے  ہیں؟

جواب

حدود اور قصاص نافذ کرنے کا اختیار شرعًا حاکم وقت اور اس کے نائب (قاضی ) کے پاس ہے،کسی پر یقینی طور پر بھی کوئی ایسا گناہ ثابت ہوجائے جس کی سزا شریعت میں قتل ہے،  تب بھی  عام لوگوں کو  قتل کی سزا نافذ کرنےکا اختیار نہیں ہے،  چہ جائیکہ  محض شک کی بنیاد پر قتل کردیا جائے، عام لوگوں کے اپنی  صواب دید پر قتل کرنے کی صورت میں وہ قاتل خود سزا کا مستحق بن جائے گا۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"والحد في الشريعة العقوبة المقدرة حقا لله تعالى حتى لا يسمى القصاص حدا لما أنه حق العبد ولا التعزيرلعدم التقدير كذا في الهداية وركنه: إقامة الإمام أو نائبه في الإقامة."

(کتاب الحدود ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۴۲،دار الفکر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا."

(کتاب الحدود  فصل فی شرائط جواز اقامۃ الحدود ج نمبر ۷ ص نمبر ۵۷،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں