ایسا شخص جس کے بارے میں یہ علم ہے کہ یقیناً اس کے تمام پیسے حرام کے ہیں، علم یقینی ہونے کے باوجود قصداً جو اس کے پیسوں کا کچھ کھالے اس کی رضامندی سے جس کے پاس حرام کے پیسے ہیں، تو کیا کھانے والے کے ذمے یہ واجب ہے کہ جو کچھ اس نے کھایا ہے اس کے پیسے واپس کردے جس کے حرام کے پیسے ہیں ؟
صورتِ مسئولہ میں جب یہ یقین تھا کہ اس شخص کی آمدنی حرام ہے، اس کے باوجود قصداً اس کا کھانا کھا لیا تو کھانے والا شدید گناہ کا مرتکب ہوا، اس گناہ کی تلافی کی یہ صورت ہے کہ صدقِ دل سے خدا کے حضور اس گناہ پر نادم ہو، اور توبہ و استغفار کرے، تاہم چوں کہ کھانا کھا چکا ہے تو اب حرام آمدنی والے شخص کو اس کھانے کے پیسے واپس کرنا لازم نہیں ہیں،البتہ اگر کسی عنوان سے اسے اتنی رقم ادا کردے تو بہتر ہوگا۔
"الفتاوی الهندية" میں ہے:
"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."
(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا و الضيافات، ج:5، ص:342، ط:دار الفكر)
و فیہ ایضاً:
"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."
(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا و الضيافات، ج:5، ص؛343، ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101940
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن