بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام آمدنی سے لے ہوئے مکان کے نفع کاحکم


سوال

1۔ایک بندہ نے حرام رقم سے گھر لیا تھا 10 لاکھ کا، پھر اسے توڑ کر حرام آمدنی سے  ہی تعمیر کیا اب اس کی قیمت 15 لاکھ ہوگئی کیا اسے پاک کرنے کے لئے پہلی رقم نکالے گا یا دوسری؟

2۔مجھے کسی نے سونا ھدیہ دیا ہے وہ بندہ بینک میں کام کرتا تھا مجھے اندازہ ہے کے اس نے کچھ بینک کی رقم اور کچھ کسی بیٹے یا کہیں اور سے کر کے مجھے سونا ھدیہ دیا ہے، اب اس سونے کی پاکی کی کیا صورت ہوگی؟

3۔اور اس سونے پر زکات آئے گی یا نہیں؟

4۔ اور زکات بعد میں آئے گی تو جس دن سونا پاک ہوا ہے اس دن سے سال شمار ہوگا یا کب ہوگا؟ 

جواب

1:سوال میں حرام مال کی وضاحت نہیں ہے  ، البتہ  جس قدر مال حرام  کمایا  اور اس سے زمین لی تھی اور اس کےبعد اس پر تعمیرات کروائیں ،تو اس کا حکم یہ ہے کہ  جو اصل سرمایہ یعنی دس لاکھ روپے  ہے  یہ رقم  مالک کو  واپس کرنا  لازم ہے، اگر وہ شخص موجود نہ ہو جس سےمال حرام  لیا ہو، مر گیا ہو تو اس کے ورثاء کو دی جائے گی ، ورثاء بھی موجود نہ ہوں، یا کوشش کے باوجود ان کا علم نہ ہو سکے تو غر یبوں محتاجوں کوبغیر ثواب کی نیت سے   صدقہ کر دیا جاۓ ، البتہ اس وقت جو نفع اس پر حاصل ہورہا ہے، اس کے استعمال کرنے کی گنجائش ہے ۔

2: اگر ہدیہ دینے والے کا اکثر مال حلال ہے اور کچھ مال حرام  ہے تو اس سے ہدیہ لیا جاسکتا ہے۔اور اگر یقین ہو کہ یہ حرام مال والے حصہ سے ہی ہدیہ دے رہاہے تو اس سے ہدیہ لینا درست نہیں۔ اسی طرح اگر اکثر آمدن حرام ہے تو بھی ہدیہ قبول کرنا جائزنہیں۔

3: جب یہ بات یقینی نہیں  ہے کہ  یہ حرام مال سے کیا ہے  تو  اس کو صدقہ کرنا واجب نہیں  ہے اور اس پرزکوۃ بھی اپنی شرائط کے ساتھ واجب ہوگی ۔

4:جب یہ یقینی نہیں ہے کہ  ہدیہ حرام سے کیا ہے تو جس دن ہدیہ دیا  تھا اس دن سے ہی سال شمار ہو گا، البتہ  یہ بات یا د رہے کہ صرف سونے کی زکوۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے اور  اس  کا یہ نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ اس وقت ہے جب کہ سونے کے ساتھ کوئی اور قابلِ زکاۃ مال (چاندی، رقم، مالِ تجارت) موجود نہ ہو، لہٰذا اگرسائل کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم  سونا ہو  اورنقد رقم، مالِ تجارت یا چاندی کچھ بھی موجود نہ ہو تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔

لیکن اگرسائل کے پاس  سونے کے ساتھ  کوئی اور قابلِ زکاۃ مال موجود ہو، تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا اگر سونے اور دوسرے قابلِ زکاۃ مال کو ملا کر مجموعی قیمت ساڑے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو اس پر زکاۃ ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."

( كتاب الكراهية،  الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات،5 / 342، ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"اكتسب حراما واشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئا. قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا وهذا قياس
(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس ".

غصب حانوتا واتجر فيه وربح يطيب الربح كذا في الوجيز للكردري.

(كتاب الغصب، الباب الثامن، 142/5ط: سعید )

فتاوی محمودیہ کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

"جس قدر مال بطریق حرام کمایا ، اس کی واپسی لازم ہے، اگر وہ شخص موجود نہ ہو جس سے مثلا مال حرام( مثلا رشوت یا غصب ) لیا ہو، مر گیا ہو تو اس کے ورثاء کو دیا جائے ۔ ورثاء بھی موجود نہ ہوں، یا کوشش کے باوجود ان کا علم نہ ہو سکے تو غریبوں محتاجوں کو صدقہ کر دیا جاۓ ،  لیکن اس مال کے ذریعہ دوسرا حلال مال کمایا گیا تو اس کو حرام نہیں کیا جائے گا۔کذا فی رد المحتار۔"

 

(کتاب  الحظر و الاباحۃ، باب المال الحرام و مصرفہ، ج:18، ص:408، ط:ادارۃ الفاروق)

بدائع الصنائع میں ہے :

"أَمَّا الْأَوَّلُ فَكَمَالُ النِّصَابِ شَرْطُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ فَلَا تَجِبُ الزَّكَاةُ فِيمَا دُونَ النِّصَابِ ".

(کتاب الزکوٰۃ، فصل فی بیان الشرائط التی ترجع الیٰ المال، ج:2، ص:404،  دارالکتب العلمیة)

بدائع الصنائع میں ہے :

"فَأَمَّا إذَا كان له ذَهَبٌ مُفْرَدٌ فَلَا شَيْءَ فيه حتى يَبْلُغَ عِشْرِينَ مِثْقَالًا فإذا بَلَغَ عِشْرِينَ مِثْقَالًا فَفِيهِ نِصْفُ مِثْقَالٍ."

(کتاب الزکوٰۃ، فصل فیما إذا كان ذهبا مفردا، ج:2، ص:410،  دارالکتب العلمیة)

 فتاوى تاتارخانية  میں ہے :

"ويضم الذهب إلى الفضة، والفضة إلى الذهب، ويكمل إحدى النصابين باالأخر عند علمائنا.... ثم قال أبو حنيفة: يضم باعتبار القيمة.... وقال ابويوسف و محمد: يضم باعتبار الأجزاء يعني بالوزن."

(كتاب الزكوة، فصل في زكوة المال، ج:3، ص:157، مکتبۃ رشيديه)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507102104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں