1- کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارا رینٹ اے کار کا کاروبار ہے، جس میں ہم لوگوں کو گاڑیاں کرائے پر دیتے ہیں، جو حضرات گاڑیاں کرائے پر لیتے ہیں ان میں سے بعض اوقات سودی کاروبار کرنے والے حضرات ہوتے ہیں، اسی طرح کبھی ڈرامے بنانے اور شوٹنگ کرنے والے بھی ہم سے کرائے پر گاڑی لیتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ جن لوگوں کی آمدنی حرام ہو ان کو رینٹ پر گاڑیاں دینا کیسا ہے؟ اسی طرح ڈراموں میں رینٹ پر گاڑیاں دینا کیسا ہے؟
2- بسا اوقات ہمارے پاس گاڑیاں ختم ہو جاتی ہیں، پھر ہم پارٹی کو گاڑی دینے کے لئے دوسروں سے گاڑیاں منگواتے ہیں، جس میں ایک گاڑی میں 500 یا 300 وغیرہ ہم اپنے لئے کمیشن رکھتے ہیں اور اس کمیشن کو گاڑی کے مالک اور گاڑی کرایہ پر لینے والے دونوں حضرات سے چھپاتے ہیں اب پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کمیشن لینا جائز ہ؟
1- صورت مسئولہ میں سائل کا سودی کاروبار کرنے والے، ڈرامہ بنانے والے اور شوٹنگ کرنے والوں کو جان بوجھ کر گاڑی رینٹ / کرایہ پر دینا مناسب نہیں ہے، اور کرایہ کی رقم حرام تو نہیں لیکن حلال طیب بھی نہیں ہے، اس لئے ایسے لوگوں کو گاڑی کرایہ پر دینے سے بچنا چاہیئے۔
2- اسی طرح سائل کے پاس رینٹ / کرایہ دینے کے لئے گاڑی میسر نہ ہو تو سائل دوسروں سے گاڑی لے کر فراہم کرتا ہے، اور ہر گاڑی پر کمیشن بھی وصول کرتا ہے، تو شرعاً سائل گاڑی فراہم کرنے کے عوض کمیشن وصول نہیں کرسکتا ہے البتہ کرایہ طے کرلیں، مثلاً لوگوں سے گاڑی کا کرایہ بارہ سو طے کیا اور گاڑی کے مالک سے ایک ہزار کرایہ طے کیا، تو لوگوں سے بارہ سو روپئے لے کر گاڑی کے مالک کو ہزار روپے دینا اور دو سو روپئے اپنے استعمال میں لینا جائز ہوگا۔
روح المعانی میں ہے:
"قوله تعالی: ولا تزر وازرة وزر أخری‘‘ أی لاتحمل نفس آثمة ’’وزر أخری‘‘ أی إثم نفس أخری بل تحمل کل نفس وزرها۔"
(روح المعانی: 22/ 184، فاطر:18، ط: امدادیه)
فتاوی شامی میں ہے:
"اكتسب حراما واشترى به أو بالدراهم المغصوبة شيئا. قال الكرخي: إن نقد قبل البيع تصدق بالربح وإلا لا وهذا قياس۔ قال ابن عابدین: (قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ وعلى هذا مشى المصنف في كتاب الغصب تبعا للدرر وغيرها۔"
(کتاب البیوع، باب المتفرقات من أبوابها، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه: 5/ 235، ط: سعید)
إعلاء السنن میں ہے:
"قال ابن عباس: لابأس أن یقول: بع هذا الثوب فما زاد علی کذا فهو لک… وفی التلویح: أما قول ابن عباس وابن سیرین، وأکثر العلماء لایجیزون هذا، لأنها وإن کانت أجرة سمسرة لکنها مجهولة، وشرط جوازها عند الجهمور أن تکون الأجرة معلومة۔"
(کتاب الإجارۃ، باب أجر السمسرۃ: 16 / 207،ط:إدارۃ القرآن)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101509
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن