بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام آمدنی ملکیت بدلنے سے حرام ہی رہتی ہے


سوال

میں نے اپنے بینک اکاؤنٹ میں فکس ڈپازٹ سے سود وصول کیا اور یہ   رقم کسی دوسرے شخص کو بطور قرض دے دی، قرض لینے والے نے کچھ عرصے بعد قرض واپس کر دیا، مجھے قرض لینے والے سے جو رقم ملی وہ حلال ہے یا حرام ہے  کیونکہ یہ سودی آمدنی تھی؟

جواب

صورت مسئولہ میں جو آپ نے جو صورت بتائی ہے تو یہ آمدنی ابھی بھی حرام ہے ملکیت بدلنے سے حرمت ختم نہیں ہوگی اور حرام مال کا حکم یہ ہے کہ اس کو اصل مالک کو واپس کیا جائے اور اگر واپس کرنا ممکن نہ ہو تو اسے بغیر ثواب کی نیت کے زکوۃ کے مستحق افراد پر  صدقہ کردیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"نقل الحموي عن سيدي عبد الوهاب الشعراني أنه قال في كتابه المنن: وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ"

(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۹۸ ط : دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۹۹ ط : دارالفکر)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال(۲۹۰۹) : قدیم ۴/۵۴۳-  یوں مشہور ہے کہ تبدّلِ مِلک سے اور دام دینے سے حرمت زائل ہوجاتی ہے یہ صحیح ہے یا نہیں ؟

الجواب:  تبدلِ مِلک سے تبدّل عین کا ہوجانا اس کے یہ معنی نہیں جو عوام سمجھتے ہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس کسی خاص طریقہ سے کوئی چیز آئی ، اس شخص کے لیے وہ طریقہ حلال تھا، لیکن اس طریقہ سے اگر دوسرے شخص کے پاس آتی تو اس کے لیے حلال نہ ہوتا، اب اس شخص نے اس دوسرے شخص کو کسی دوسرے طریق سے وہ چیز دی جوکہ اس دوسرے شخص کے لیے بھی حلال ہے، سو اس میں اس پہلے طریقہ پر لحاظ  نہ کیا جائے گا اور اس کا اثر اب باقی نہ رہے گا، مثلاً: غنی کو صدقہ لینا حرام ہے، مگر کسی فقیر کو کوئی چیز صدقہ میں ملی اور اس نے ہدیۃً اس غنی کو دی، اب اس کے لیے حلال ہوگی، گویا یہ دوسری چیز ہوگی، یہ مطلب ہے اس قاعدہ کا ، اسی طرح سے جو مشہور ہے کہ دام دینے سے حرمت زائل ہوجاتی ہے تو یہ بالکل ہی غلط ہے۔   "

(مسائل شتی جلد ۴ ص:۵۴۳ ط:مکتبۃ دار العلوم کراچی )

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں