بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام آمدنی والوں کا کھانا ساتھ کھانا


سوال

جناب میں ایک سرکاری دفتر میں کام کرتا ہوں دفتر میں بہت سے لوگ کام کرتے ہیں جن میں کچھ لوگ رشوت میں ملوث ہیں ہم بہت سے لوگ پیسے جمع کر کے کھانا منگاتے ہیں. جس میں رشوت کا لین دین کرنے والے بھی شامل ہوتے ہیں تو کیا ہمیں ایسا کھانا جائز ہے یا نہیں ؟

 بہت سے لوگ جو رشوت لیتے ہیں اپنی جائز تنخواہ کے علاوہ تو وہ گھر سے کھانا لاتے ہیں یا ہوٹل سے کھانا منگاتے ہیں تو کیا یہ کھانا ہمارے لیے جائز ہے کیونکہ اس میں چیز کا تعین کرنا مشکل ہے کہ آیا کھانا رشوت کے پیسے سے ہے یا تنخواہ سے ایسے افراد جو رشوت سے لیتے ہیں کھانا منگاتے ہیں کیا ان کے ساتھ کھانا ان کی رقم سے جائز ہے؟

جواب

حرام آمدنی والے کے ساتھ بیٹھ کر کھائے جانے والے کھانے میں اگرکوئی حرام چیز نہ ہو اور کھانا بھی حرام کے پیسوں کا نہ ہو اور مجلس بھی غیر شرعی نہ ہو تو صرف اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اگر  اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے اور تعلقات رکھنے کی صورت میں حلال کی ترغیب اور حرام سے بچنے کی تلقین کرنے سے وہ حرام سے بچ جائے گا تو یہ عین مطلوب اور مقصود ہے۔ اور اگر کھانا ہی حرام کمائی والے کا ہے تو اس میں یہ تفصیل ہے :

1۔۔  اگر اس شخص کی آمدنی خالص حرام ہو، اور وہ ا پنی اس متعین حرا م آمدنی سے کھانا  کھلائے یا  ہدیہ دے تو  جان بوجھ کر ایسے  شخص کا کھانا کھانا جائز نہیں ہے۔

2۔۔ اگر اس شخص کی آمدنی خالص حرام ہو، لیکن وہ اپنی اس حرام آمدنی سے کھانا کھلانے کے بجائے   کسی دوسرے شخص سے حلال رقم قرض لے کر  کھانے  کا انتظام کرے، تو ایسے شخص کا کھانا کھانا جائز ہے۔

3۔۔ اگراس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی ، اور دونوں آمدنی جدا جدا ہوں، تو ایسی صورت میں اگر وہ حرام آمدنی سے  کھانا کھلائے تو اس کا کھانا ، کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر حلال سے کھانا کھلائے تو پھر اس کاکھانا، کھانا  جائز ہوگا۔

4۔۔اگراس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی  ہو،  اور  یہ دونوں قسم کی آمدنی اس کے پاس اس طرح مخلوط ہو کہ ایک آمدنی کو  دوسری آمدنی سے ممتاز کرنا مشکل ہو، لیکن حلال آمدنی کی مقدار زیادہ ہو اور حرام آمدنی کی مقدار کم ہو تو ایسی صورت میں اس  کا کھانا کھانے  کی گنجائش ہے، لیکن اس صورت میں بھی اگر اجتناب کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

5۔۔اور اگر اس شخص کی آمدنی حلال اور حرام سے مخلوط ہو  لیکن  آمدنی کی اکثریت حرام ہو تو اس صورت میں  اس کا کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

لہذا صورت مسؤلہ میں اگر اس سرکاری ملازم کی اکثر آمدنی کے حرام ہونے کا یقین ہو تو اس کے ساتھ کھانا کھانا  جائز نہیں ، ورنہ اس کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

" عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض  هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»

...  قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ  خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق".

(8/ 3146،  کتاب الاداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الاول، ط: دارالفکر)

     عارضۃ الاحوذی میں ہے:

"وأما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجره حتى  ينزع  عن فعله وعقده  فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلة حتى صحت توبتهم عند الله فأعلمه فعاد إليهم".

(عارضۃ الاحوذی لابن العربی  المالکی (8/116) ابواب البر والصلۃ،ط: دارالکتب العلمیہ)

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

(5 / 367، الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، ط: دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط".(5 / 343، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)(مجمع الانھر، (2/529) کتاب الکراہیۃ، ط: دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102487

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں