بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام آمدنی والے کا ہدیہ قبول کرنا


سوال

 ہمارے ایک رشتےدار نے پوری زندگی سودی بینک میں کام کیا ہے، اب انہوں نے کھانے کا سامان برگر وغیرہ بیچنے کا کاروبار شروع کیا ہے اور ساتھ میں بینک کی نوکری بھی کر رہے ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ انہوں نے کچھ برگر  ہدیہ کے طور  ہمارے ہاں پر بھیجے، تو یہ برگرز اور دوسری کھانے کی چیزیں ان کے پاس سے خرید کرکھانا یا ہدیہ کی کھانا جائز ہو گا يا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کے رشتہ دار نے اگرحرام  کمائی  سے ہی برگر کا کاروبار شروع کیا ہے تو ان سے ہدیہ لینا درست نہیں ہے ،اگر کاروبار میں اکثرپیسہ حلال تھااور کچھ مال حرام تھا  تو اس صورت میں      رشتہ دار سے  ہدیہ لیا جاسکتا ہے، اسی طرح ان کی دکان سے کوئی چیز خرید کر کھانا      جائز ہے ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"إذا علم أن أكثر ماله حلال بأن كان صاحب تجارة أو زرع فلا بأس به؛ لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام فالمعتبر الغالب، وكذا أكل طعامهم، كذا في الاختيار شرح المختار."

فتاوی شامی  میں ہے :

"قوله: اکتسب حرامًا، توضیح المسألة ما في التاتارخانیة حیث قال: رجل اکتسب مالًا من حرام … ثم اشتریٰ منہ بها أو اشتریٰ قبل الدفع بها ودفعها … أو اشتریٰ مطلقًا ودفع تلک الدراهم، قال الکرخي في الوجه الأول والثاني: لایطیب، وفي الثلاث الأخیرة یطیب. وقال أبوبکر: لایطیب في الکل، لکن الفتویٰ الآن علی قول الکرخي دفعاً للحرج عن الناس".

(کتاب البیوع ،مطلب اذا اکتسب حراما235/5،سعید )

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144402100712

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں