کوئی اگر حرام کماتا ہو اور مجھے پیسے کی ضرورت ہے تو کیا میں اس سے قرض لے سکتا ہوں یا نہیں؟
واضح رہے کہ ناجائز کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع اور ناجائز کمائی کو فقہی اصطلاح میں "ملکِ خبیث" کہتے ہیں جس کے وبال سے بچنے کے لیے اس کا صدقہ کرنا واجب ہے، اور اسے استعمال کرنا ناجائز ہے۔
لہذا اگر کسی شخص کی آمدنی یقینی طور پر حرام کی ہے اور اس کے علاوہ اس کا کوئی اور ذریعہ آمدن نہیں ہے، اور قرض لینے والے کو معلوم بھی ہے کہ اس کی آمدنی حرام ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ کسی اور حلال آمدن والے شخص سے قرض لینے کا بندوبست کرے، حرام آمدن والے سے قرض نہ لے، البتہ اگر شدید ضرورت ہو اور حلال آمدن والے سے قرض نہ مل رہا ہو تو مجبوری میں اس سے قرض لینے کی گنجائش ہوگی، ورنہ نہیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه." (٥ / ٩٩)
منحة الخالق لابن العابدين میں ہے:
"وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَإِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."
(منحة علي البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211201160
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن