بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرآم آمدنی والے کی دعوت قبول کرنا/ حالتِ سجدہ میں ٹوپی کا ماتھے پر آجانا/ دورانِ غسل پانی کے چھینٹوں کا حکم


سوال

1- میرے ایک چچا ہیں جو زرعی ترقیاتی بینک سے بطور منیجر ریٹائرڈ ہوئے ہیں، اب ان کو سالانہ پینشن ملتی ہے، ان کے دو بیٹے ہیں؛ ایک اسکول میں اور  دوسرا ریسکیو  1122 سروس میں ملازمت کرر رہاہے، میرے خیال میں ان کے بیٹے ان کو اپنی تنخواہ میں سے کچھ نہیں دیتے، میرے چچا زمینداری بھی کرتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ کبھی کبھار میرا ان کے گھر جانا ہوتا ہے اور وہ کچھ کھانے کے لیے پیش کرتے ہیں، میں بہت منع کرتا ہوں لیکن وہ کچھ نہ کچھ کھلا دیتے ہیں، تو ایسی حالت میں میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کا کھانا میں کھا سکتا ہوں؟

2- نماز میں سجدے کی حالت میں اگر زمین اور ماتھے کے درمیان ٹوپی آجائے تو کیا اس سے نماز پر کچھ اثر پڑتا ہے؟

3- حالتِ جنابت میں جب بندہ غسل کرتا ہے، اس دوران جسم سے کچھ  چھینٹے پانی میں گرتے ہیں، اور وہ پانی غسل کرنے کے بعد باقی بچ جائے، تو اس پانی کو بندہ اپنے استعمال میں لاسکتاہے یا نہیں؟ نیز جس برتن سے غسل کیا ہو مثلاً گلاس یا بالٹی وغیرہ، اس کا دھونا ضروری ہے یا بغیر دھوئے دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں؟

جواب

1- اگر ہدیہ دینے والے کا اکثر مال حلال ہے اور کچھ مال حرام  ہے تو اس سے ہدیہ لیا جاسکتا ہے۔ اور اگر یقین ہو کہ یہ حرام مال والے حصہ سے ہی ہدیہ دے رہاہے تو اس سے ہدیہ لینا درست نہیں۔ اسی طرح اگر اکثر آمدن حرام ہے تو بھی ہدیہ قبول کرنا جائزنہیں؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے چچا کی جائز ذرائع (مثلاً زمین داری) سے آمدن زیادہ ہے اور بینک کی پینشن کی رقم کم ہوتی ہے تو آپ کے لیے وہاں کچھ کھانے یا ہدیہ لینے کی گنجائش ہوگی، البتہ اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ حرام آمدن سے ہی آپ کو دے رہے ہیں تو ہدیہ قبول کرنا اور کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر بینک سے ملنے والی پینشن کی مقدار حلال آمدن سے زیادہ ہو تو ان کے گھر کھانا پینا یا ان سے کچھ لینا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر وہ کچھ بھیج دے اور واپس کرنے کی صورت میں رشتہ داری ٹوٹنے کا خوف ہو تو  خود استعمال کرنے کی بجائے کسی غریب کو ثواب کی نیت کے بغیر دے دیں۔ اور حکمت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اپنے چچا کو سمجھائیں، امید ہے کہ وہ تائب ہوجائیں۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

" عن أبي أيوب الأنصاري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض  هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه.»

...  قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ  خمسين يوما. قال: وأجمع العلماء على أن من خاف من مكالمة أحد وصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوز له مجانبته وبعده، ورب صرم جميل خير من مخالطة تؤذيه. وفي النهاية: يريد به الهجر ضد الوصل، يعني فيما يكون بين المسلمين من عتب وموجدة، أو تقصير يقع في حقوق العشرة والصحبة دون ما كان من ذلك في جانب الدين، فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق".

(8/ 3146،  کتاب الاداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الاول، ط: دارالفکر)

     عارضۃ الاحوذی میں ہے:

"وأما إن كانت الهجرة لأمر أنكر عليه من الدين كمعصية فعلها أو بدعة اعتقدها فليهجره حتى  ينزع  عن فعله وعقده  فقد أذن النبي صلي الله عليه وسلم فى هجران الثلاثة الذين خلفوا خمسين  ليلة حتى صحت توبتهم عند الله فأعلمه فعاد إليهم".

(عارضۃ الاحوذی لابن العربی  المالکی (8/116) ابواب البر والصلۃ،ط: دارالکتب العلمیہ)

المحيط البرهاني  میں ہے:

"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

(5 / 367، الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، ط: دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط".

(5 / 343، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)(مجمع الانھر، (2/529) کتاب الکراہیۃ، ط: دار احیاء التراث العربی)  

2-  سجدے میں پیشانی کا کھلا رکھنا مستحب ہے، اگر بلاضروت ٹوپی کے ذریعہ  پیشانی ڈھانپ لی جائے اور اس پر سجدہ کیا جائےتو نماز کراہت کے  ساتھ ادا ہوجائے گی، اور اگر کسی خاص عذر کی وجہ سے پیشانی چھپ جائے تو بلاکراہت نماز درست ہوگی۔

"عن صالح بن حیوان السبائی، حدثه أن رسول الله صلی الله علیه وسلم، رأی رجلًا یصلي یسجد بجبینه، وقد اعتمّ علی جبهته، فحسر النبي صلی الله علیه وسلم عن جبهته."

(المراسیل لأبي داؤد ص:۸، رقم:۷۶، السنن الکبری للبیهقي، باب الکشف عن الجبهة في السجود، دارالفکر بیروت جدید۲/۴۳۹)

"عن علي -رضي الله عنه- إذا صلی أحدکم، فلیحسر العمامة عن جبهته."

(المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة )

"ویکره السجود علی کور عمامته من غیر ضرورة حرٍ، أوبردٍ، أوخشونةأرضٍ ..." الخ

(مراقي الفلاح، کتاب الصلاة، فصل في المکروهات)

في الدرالمختار(۵۰۰/۱):

"(کما یکره تنزیها بکورعمامته) الا بعذر(وان صح عندنا (بشرط کونه علی جبهته) کلها او بعضها کمامر۔ (واما اذا کان) الکور (علی رأسه فقط وسجد علیه مقتصراً) ای ولم تصب الارض جبهته ولا انفه علی القول به (لا) یصح لعدم السجود علی محله، وبشرط طهارة المکان وان یجدحجم الارض، والناس عنه غافلون."

3-  اگر غسل کرنے والے کے جسم پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو تو غسل کرتے وقت استعمال شدہ پانی کے چھینٹیں اگر غسل کے پانی میں گر جائیں اور غسل کا پانی غالب ہو تو غسل کے پانی سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے، البتہ اگر استعمال شدہ پانی یا اس کی چھینٹیں غسل کے پانی پر غالب ہوجائیں تو وہ پانی اگرچہ پاک رہے گا، لیکن اس پانی سے پاکی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

اور اگر جسم پر کوئی ظاہری نجاست تھی، اسے دھوتے ہوئے ناپاک پانی کا ایک چھینٹا بھی بالٹی یا ٹب وغیرہ کے پاک پانی میں گر گیا تو  سارا پانی ناپاک ہوجائے گا۔ 

نیز  غسل کے لیے استعمال شدہ برتن  پر اگر نجاست  یا نجس قطروں کا لگا ہونا یقینی ہے یا اس کا غالب گمان  ہو تو اگلی دفعہ استعمال کرنے سے پہلے برتن دھونا فرض ہوگا،  اور اگر محض شک ہو تو دھو لینا بہتر ہے، اگر اس پر کوئی ناپاکی لگنے کا یقین یا غالب گمان نہ ہو اور ناپاکی کے شک کی کوئی وجہ بھی نہ ہو تو دھونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

"جنب اغتسل فانتضح من غسله شيء في إنائه لم يفسد عليه الماء. أما إذا كان يسيل منه سيلاناً أفسده، وكذا حوض الحمام على قول محمد - رحمه الله - لايفسده ما لم يغلب عليه يعني لا يخرجه من الطهورية".

(فتاوی ہندیہ، ۱/۲۳، رشیدیہ) 

الدر المختار  (1 / 325):

"وانتضاح غسالة لا تظهر مواقع قطرها في الإناء عفو."

وحاشية ابن عابدين (رد المحتار):

"(قوله: وانتضاح غسالة إلخ) ذكر المسألة في شرح المنية الصغير عن الخانية، وقد رأيتها في الخانية ذكرها في بحث الماء المستعمل، لكن غسالة النجاسة كغسالة الحدث بناء على القول بنجاسة الماء المستعمل، ويدل لها ما قدمناه عن القهستاني عن التمرتاشي. وفي الفتح: وما ترشش على الغاسل من غسالة الميت مما لا يمكنه الامتناع عنه ما دام في علاجه لا ينجسه لعموم البلوى، بخلاف الغسلات الثلاث إذا استنقعت في موضع فأصابت شيئا نجسته اهـ أي: بناء على ما عليه العامة من أن نجاسة الميت نجاسة خبث لا حدث كما حررناه في أول فصل البئر، واحترز بالثلاث عن الغسالة في المرة الرابعة فإنها طاهرة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200113

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں