بندہ بارڈر پر ملازم ہے،وہاں پر روزانہ جانبین سے دسیوں افراد غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کرتے ہیں، جن سے افسران بالا فی فرد کے حساب سے پیسہ لیتے ہیں ۔
پوچھنا یہ ہے کہ بندہ سے اوقات ڈیوٹی کے علاوہ مزید ڈیوٹی بھی لی جاتی ہے، اور پھر ہمیں یہی پیسہ ملتا ہے، کیا اس کا لینا جائز ہے؟
وضاحت: مزید ڈیوٹی حکومت کی طرف سے نہیں، بلکہ یہاں بارڈر پر موجود افسران بالا کی طرف سے لی جاتی ہے ، اور بالکل وقفہ نہیں دیا جاتا ، کیوں کہ ایک مخصوص کام انہوں نے ایک دن میں سرانجام دینا ہوتا ہے ۔
اور جو اضافی رقم انہیں غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کرنے والے افراد اور دیگر اشیاء کی مد میں آتی ہے ،وہ رینک وائز شام کو تقسیم کی جاتی ہے۔
غیر قانونی طور پر افراد کو بارڈر پار کرانا قانونا جرم ہے تو شرعا بھی جرم ہے لہذا اور اس کے نتیجہ میں جو رقم ملے وہ رشوت ہے ،لہذا اس رقم کا لینا دینا دونوں جائز نہیں ،چاہے یہ رقم براہ راست حاصل ہو یا بالواسطہ ملے۔
سنن ترمذی میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي."
(باب ما جاء في الراشي والمرتشي في الحكم، ج:3، ص:16، ط:دار الغرب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي القنية الرشوة يجب ردها ولا تملك."
(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، ج:5، ص:362، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411100623
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن