بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام پیسوں سے مسجد کے سامنے بیٹھنے کے لیے جگہ بنانا


سوال

کیا حرام پیسوں سے مسجد کےسامنے بیٹھکوں کو لگا سکتے ہیں یعنی لوگوں کے بیٹھنے کے لئے؟

جواب

یہ بات واضح رہے کہ حرام مال میں ضابطہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اس مال کے مالکوں کو معلوم کرکے انہیں یہ مال واپس کیا جائے اور وہ معلوم نہ ہو تو پھر اس مال کو ثواب کی نیت کیے بغیر فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں  حرام پیسوں سے مسجد کے سامنے لوگوں کے بیٹھنے کے لیے بیٹھکوں  لگانا درست نہیں ہے بلکہ اگر اس حرام پیسوں کے اصل مالک معلوم ہو تو انہیں وہ پیسے حوالہ کئے جائیں وگرنہ   ان پیسوں کو ثواب کی نیت کیے بغیر فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"رجل مات وكسبه من الحرام ينبغي للورثة أن يتعرفوا فإن عرفوا أربابها ردوا عليهم، وإن لم يعرفوا تصدقوا به كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب البیوع، الباب العشرون فی البیعات المکروہۃ و الارباح الفاسدۃ، ج:3، ص:210، ط:دار الفکر بیروت)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"كذلك إذا توفي المرتشي فلا يملك وارثه الرشوة ويلزمه إعادتها إلى الراشي حتى أنه إذا توفي الرجل الذي كسبه حرام فيجب على ورثته؛ أن يتحروا أصحاب ذلك المال الحرام فيردوه إليهم وإذا لم يجدوهم أن يتصدقوا بذلك المال."

(الکتاب السادس عشرالقضاء، الباب الاول فی حق القضاء، الفصل الثانی فی بیان آداب القاضی،  المادۃ:1797، ج:4، ص:592، ط:دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں