زید ایک سودی بینک میں منیجر کی پوسٹ پر تھا،اس کو ریٹائرمنٹ کے بعد جو رقم یکمشت ملی ہے،تو اس سے زید نے ایک مارکیٹ بنائی، دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے مارکیٹ میں کرایہ پر دکان لینا شرعاً کیسا ہے؟بکر کا موقف یہ ہے کہ سودی بینک کا منیجر براہِ راست سودی معاملات میں ملوث ہوتا ہے،اس لیے اس کی تنخواہ اور اس پر ملنی والی پنشن حرام ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید نے جو مارکیٹ سودی بینک سے ملنے والی پنشن کے پیسوں سے بنائی ہے اس مارکیٹ میں دکان کرایہ پر لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ جو چیز اصلاً حرام ہو اس کی حرمت متعدی ہوتی ہے،جب کہ عمرو کا موقف یہ ہےکہ مذکورہ مارکیٹ میں دکان کرایہ پر لینے کی گنجائش ہے،کیوں کہ حرام کمائی والا شخص حرام کمائی سے کوئی عقد کرے اوراس میں وہ کمائی والا پہلے ( ایڈوانس ) وہ پیسے دے کر عقد نہ کرے ( یعنی عقد کے بعد وہ پیسے ادا کرے) تو اس عقد سے حاصل ہونے والی چیز میں خبث ( حرمت ) نہیں آتی اور ہمارے عرف میں عام طور پر چوں کہ معاملہ ایڈوانس والی صورت کے بغیر ہی ہوتا ہے،اس لیے ان دکانوں میں خبث نہیں آئے گا،مفتی بہ قول کے مطابق اس مارکیٹ میں دکان کرایہ پر لیناجائز ہوگا یا نہیں؟ تحقیقی جواب دے کر مشکور فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں بینک منیجر زید نے ریٹائرمنٹ کے بعد جو مارکیٹ بنائی تھی اس مارکیٹ کی کسی دکان کو کرایہ پر لینے کی شرعاً گنجائش ہے، کیوں کہ آج کل مال حرام سے خریدی گئی چیزوں کے حکم سے متعلق فتویٰ امام کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر ہے۔
فتاوٰی محمودیہ میں ہے:
”سوال: ۔۔۔ایسا مکان جو حرام سے بنایا گیا یا خریدا گیا ہے اس کو مالِ حلال کے عوض خرید کر اپنے مصرف میں لایا جاسکتا ہے یا نہیںَ؟ یا ایسی زمین اور ایسے مکان کو کرایہ پر لیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: زمین یا مکان کے حرام مال سے خریدنے کی چار صورتیں ہیں (اگر حرام مال کو متعین کر کے اس کے بدلہ میں حلال مال خریدا ہے اور پھر وہی حرام مال متعینہ قیمت میں ادا کر دیا ہے تب تو اس کی آمدنی ناجائز ہے، اسکو غرباء ومساکین میں پر صرف کردیا جائے، کسی اور کار خیر میں لگانا یا اپنے کام میں خرچ کرنا شرعاً درست نہیں، اگر بغیر مالِ حرام کوئی مالِ حلال خریدا اور پرھ وہ مال حلال قیمت میں ادا کر دیا یا متعین تو کیا مال حرام کو، مگر ادا کیا مال حلال یا متعین تو کیا مال حلال ، مگر ادا کیا مال حرام تو ان تینوں صورتوں میں کرخی کے نزدیک آمدنی اس کی حلال ہوگی...ذخیرہ، قہستانی ، غرر، مختصر وقایہ ، اصلاح وغیرہ میں اس پر فتویٰ نقل کیا گیا ہے)جیسا کہ نمبر 2 میں مذکور ہوئیں، اگر مشتری نے اول صورت سے خریدا ہے تب تو اس سے مشترئ آخر کو حلال مال سے خریدنا درست نہیں ، اگر بقیہ تین صورتوں سے خریدا ہے تو مشترئ آخر کو خریدنا درست ہے۔ فقط“
(مالِ حرام اور اس کے مصرف کا بیان: ج: 18، ص: 410-412، ط: ادارہ الفاروق)
فتاوٰی شامی میں ہے:
"(قوله اكتسب حراما إلخ) توضيح المسألة ما في التتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام اهـ."
(کتاب البیوع، باب المتفرقات، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه: ج:5، ص:235، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144404101249
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن