زید نے بکر کے لیے گاڑی خریدی اور اس پر زید بکر سے بیس ہزار کمیشن لیتا ہے جو کہ طے ہوا تھا جبکہ زید کو معلوم ہے کہ بکر کی تمام کمائی حرام کی ہےتو کیا زید کے لیے یہ کمیشن لینا جائز ہوگا ؟
صورتِ مسئولہ میں بکر نے جب اس بات کی صراحت نہیں کی کہ وہ زید کو کمیشن حرام آمدنی سے دے گا تو زید کے لیے بکر سےاپنی محنت کا کمیشن لینا جائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهمَ...وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب."
(كتاب البيوع، باب المتفرقات، مطلب إذا اكتسب حراما ثم اشترى فهو على خمسة أوجه، ج:7،ص:490)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308101604
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن