بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرام کمائی والے کا کھانا اور ہدیہ


سوال

حرام اور حلال کمانے والا شخص اگر کوئی ہدیہ یا کھانے کی چیز دےتو اس کےلینے کاکیا حکم ہے؟

جواب

حرام کمائی والے کے ہدئیے اور کھانے میں یہ تفصیل ہے کہ :

1۔۔  اگر اس شخص کی آمدنی خالص حرام ہو، اور وہ ا پنی اس متعین حرا م آمدنی سے کھانا  کھلائے یا  ہدیہ دے تو  جان بوجھ کر ایسے  شخص کا کھانا کھانا جائز نہیں ہے۔

2۔۔ اگر اس شخص کی آمدنی خالص حرام ہو، لیکن وہ اپنی اس حرام آمدنی سے کھانا کھلانے کے بجائے   کسی دوسرے شخص سے حلال رقم قرض لے کر  کھانے  کا انتظام کرے، تو ایسے شخص کا کھانا کھانا جائز ہے۔

3۔۔ اگراس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی ، اور دونوں آمدنی جدا جدا ہوں، تو ایسی صورت میں اگر وہ حرام آمدنی سے  کھانا کھلائے تو اس کا کھانا ، کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر حلال سے کھانا کھلائے تو پھر اس کاکھانا، کھانا  جائز ہوگا۔

4۔۔اگراس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی  ہو،  اور  یہ دونوں قسم کی آمدنی اس کے پاس اس طرح مخلوط ہو کہ ایک آمدنی کو  دوسری آمدنی سے ممتاز کرنا مشکل ہو، لیکن حلال آمدنی کی مقدار زیادہ ہو اور حرام آمدنی کی مقدار کم ہو تو ایسی صورت میں اس  کا کھانا کھانے  کی گنجائش ہے، لیکن اس صورت میں بھی اگر اجتناب کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

5۔۔اور اگر اس شخص کی آمدنی حلال اور حرام سے مخلوط ہو  لیکن  آمدنی کی اکثریت حرام ہو تو اس صورت میں  اس کا کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".

(المحيط البرهاني،‌ كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل السابع عشر فی الھدایا والضیافات، 5 / 367، ط: دارالکتب العلمیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".

(الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية،  الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات،5 / 342، ط: رشیدیہ)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط".

(الفتاوى الهندية، کتاب الکراہیۃ، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، 5 / 343, ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں