کیا ہر وضو سے پہلے استنجا کرنا ضروری ہے یا پھر قضائے حاجت کے بعد استنجا کرنا ضروری ہوتا ہے ؟
استنجا کا تعلق وضو کے ساتھ نہیں، بلکہ قضائے حاجت کے ساتھ ہے۔ قضائے حاجت کے بعد استنجا کرنا سنت ہے اور بعض صورتوں میں (یعنی جب نجاست اپنے نکلنے کی جگہ سے تجاوز کرکے ارد گرد جسم پر لگ جائے) واجب ہوجاتا ہے، قضائے حاجت کے بغیر وضو کرنے کی صورت میں اس سے پہلے استنجا کرنا ضروری نہیں۔ اور اسے ضروری سمجھنا شرعاً غلط ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
"أن الاستنجاء على خمسة أوجه: اثنان واجبان:
أحدهما: غسل نجاسة المخرج في الغسل من الجنابة والحيض والنفاس كي لاتشيع في بدنه.
والثاني: إذا تجاوزت مخرجها يجب عند محمد قل أو كثر وهو الأحوط؛ لأنه يزيد على قدر الدرهم، وعندهما يجب إذا جاوزت قدر الدرهم؛ لأن ما على المخرج سقط اعتباره، والمعتبر ما وراءه.
والثالث: سنة، وهو إذا لم تتجاوز النجاسة مخرجها.
والرابع: مستحب، وهو ما إذا بال ولم يتغوط فيغسل قبله.
والخامس: بدعة، وهو الاستنجاء من الريح. اهـ". (الرد مع الدر : ١/ ٣٣٥) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144111200266
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن