بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہر شریکِ مسابقہ سے انٹری فیس لے کر اس کے برابر ہر شریکِ مسابقہ کو انعام دینے کا حکم


سوال

مسابقۃ القرآن کےمساہمین سے انٹری فیس لے کر انعامات دینا کیسا ہے ؟جب کہ وہ ہر مساہمین کو تشجیعی انعام دینے کا ارادہ رکھتا ہے جو کم و بیش انٹری فیس کے برابر ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں مسابقہ کے ہر شریک سے محض انٹری فیس (داخلہ فیس) لینا جائز نہیں، کیوں کہ داخلہ فیس لینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، اس لیے کہ یہ کسی چیز کے عوض میں نہیں ہے، تا ہم  اگر  مسابقہ کی کار روائی، فارم اور عملہ کی خدمات کے عوض اس کام کی جتنی عموماً اجرت بنتی ہے اتنی ہی لی جائے تو اس کی گنجائش ہے۔

  پھر اس کے بعد مسابقہ کی انتظامیہ کی طرف سے انٹری فیس کے  برابر انعام  مسابقہ کےہر ایک شریک  کو  دیا جائے گا تو یہ انتظامیہ کی طرف سے تبرع سمجھا جائے گا اور یہ صورت شرعاً جائز ہے۔

تاہم سوال میں انٹری فیس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی، اس لیے اس کی تفصیل سے وضاحت کر کے دوبارہ سوال ارسال کیا جائے، اس پر حتمی جواب دیا جائے گا۔

کفایت المفتی میں ہے:

’’داخلہ کی فیس تو کوئی معقول نہیں، ماہوار فیس لی جاسکتی ہے۔‘‘

(کتاب المعاش، ج:۷، ص:۳۱۳، دار الاشاعت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون الخطر فيه من أحد الجانبين إلا إذا وجد فيه محللا حتى لو كان الخطر من الجانبين جميعا ولم يدخلا فيه محللا لا يجوز لأنه في معنى القمار نحو أن يقول أحدهما لصاحبه: إن سبقتني فلك علي كذا، وإن سبقتك فلي عليك كذا فقبل الآخر ولو قال أحدهما لصاحبه إن سبقتني فلك علي كذا وإن سبقتك فلا شيء عليك فهو جائز؛ لأن الخطر إذا كان من أحد الجانبين لا يحتمل القمار فيحمل على التحريض على استعداد أسباب الجهاد في الجملة بمال نفسه، وذلك مشروع كالتنفيل من الإمام وبل أولى؛ لأن هذا يتصرف في مال نفسه بالبدل، والإمام بالتنفيل يتصرف فيما لغيره فيه حق في الجملة وهو الغنيمة فلما جاز ذلك فهذا بالجواز أولى، وكذلك إذا كان الخطر من الجانبين ولكن أدخلا فيه محللا بأن كانوا ثلاثة لكن الخطر من الاثنين منهم ولا خطر من الثالث، بل إن سبق أخذ الخطر وإن لم يسبق لا يغرم شيئا، فهذا مما لا بأس به أيضا."

(کتاب السباق: ج:6، ص: 206، ط: دار الکتب العلمیة)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"والجعل أو الجائزة - يجوز بشروط ، منها : كونه معلوما جنسا ، وقدرا ، وصفة ، ومما يصح بيعه . والجائزة قد يخرجها الإمام أو غيره ، أو أحد المتسابقين، أو كل منهما .

فإن أخرجها الإمام أو غيره ، أو أحد المتسابقين ليأخذها السابق منهما فقد اتفق الفقهاء على أن عقد السبق صحيح والجعل حلال .

وإن أخرجها المتسابقان ليأخذها السابق منهما لم تصح المسابقة ولم يحل الجعل لأن ذلك قمار وهو حرام .

وعند الحنفية والشافعية والحنابلة تصح المسابقة ، ويحل الجعل في حالة إخراجه ، أو اشتراطه من المتسابقين إذا أدخلا بينهما محللا يخرج عقد المسابقة عن صورة القمار ، يغنم إن سبق ولا يغرم إن سبق...والجائزة في حالة وجود المحلل تستحق على النحو التالي : إن جاء المتسابقان والمحلل كلهم دفعة واحدة أحرز كل منهما سبق نفسه ولا شيء للمحلل لأنه لا سابق فيهم ، وكذلك إن سبقا المحلل ، وإن سبق المحلل وحده أحرز السبقين بالاتفاق"

(جائزة السبق(الجعل): ج: 15، ص: 81، ط: دار السلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100537

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں