بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہر مسلمان پر کتنا علم دین سیکھنا فرض ہے؟


سوال

ہر مسلمان کے لیے علم دین حاصل کرنا کس حد تک ضروری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اتنا علم کا سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے کہ جس سے اسے اللہ کی پہچان ہو، اسی طرح اتنا علم سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے جو اس کو حرام حلال کی تمیز کرادے،اوریہ  علم  حاصل کرنابھی  ضروری ہے  جس  سے  اُسے  پاکی ناپاکی کا ادراک ہوجائے۔ اسی طرح  وہ شخص جس شعبہ میں کام کررہا ہے یا جس شعبہ کا آدمی ہے، اُس شعبہ  سے متعلق اُسے  ضروری اسلامی تعلیمات کا علم ہو۔ اسی طرح تمام فرائض اور ضروریاتِ زندگی سے متعلق ضروری مسائل سے آشنا ہو۔ نیز نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج وغیرہ جیسے دین کے بنیادی اعمال کی معلومات اور ان سے متعلق ضروری مسائل کا علم ہو۔ اس کے  ساتھ  ساتھ قرآنِ کریم کی  درست خوانی کا اہتمام کرتا رہے اور  کم از کم اس حد تک قرآنِ کریم کی سورتیں یاد کرلے جس سے نماز صحیح ہوسکے۔

مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ سے تعلق قائم ہو اورصبح و شام کی مسنون دعاؤں کو سیکھنے کا اہتمام ہو۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی  مبارک سنتوں کے بارے میں معلومات ہوں اور ان کو اپنانے  کی کوشش اور اہتمام جاری رہے۔

اور یہ تمام  چیزیں ایک عام مسلمان کے لیے اُسی وقت آسان اور ممکن ہوسکتی ہیں جب اس کا اُٹھنا بیٹھنا علماء اور نیک لوگوں کے ساتھ ہوگا اور مقامی مسجد کے امام صاحب کے ساتھ اس کا تعلق ہوگا، جن سے وہ موقع بہ موقع مسائل کی معلومات لیتا رہے گا اور دین کی بنیادی باتوں کے متعلق علم حاصل کرتا رہے گا۔

اس کے ساتھ  ساتھ  ہمارے اکابرین عظام نے چند بنیادی کتابیں تصنیف فرمائی ہیں جن کے مطالعہ سے دین کی بنیادی باتوں اور بنیادی مسائل کا علم حاصل ہوسکتا ہے، خود بھی اس کا مطالعہ کریں اور جو بات سمجھ نہ آئے تو قریبی مسجد کے امام صاحب یا علماء حق سے رجوع  فرمائیں۔ کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں:1۔ تعلیم الاسلام  ( مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ )2۔ بہشتی زیور ( مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ ) 3۔ صبح و شام کے مسنون اذکار اور دعائیں ( مکتبہ شیخ سعید احمد رحمہ اللہ کراچی) 4۔ مسنون دعائیں (مولانا عاشق الہٰی بلند شہری رحمہ اللہ)

  احادیثِ مقدسہ میں  علم اور علماء کے فضائل بکثرت وارد ہوئے ہیں، ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "   علم  کی قلیل مقدار بھی  عبادت کی کثیر مقدار  سے بہتر ہے۔"

ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے  جیسی  میری فضیلت میرے ادنیٰ  امتی پر۔"

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"عن الحسن مرسلاً قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جاءه الموت وهو يطلب العلم ليحيي به الإسلام فبينه وبين النبيين درجة واحدة في الجنة» . رواه الدارمي".

(مشكاة المصابيح،كتاب العلم، الفصل الأول، ج: 1 ص: 83 ط: المکتبة الإسلامي)

سنن الترمذي میں ہے :

"2685 - حدثنا ‌محمد بن عبد الأعلى الصنعاني، قال: حدثنا ‌سلمة بن رجاء، قال: حدثنا ‌الوليد بن جميل، قال: حدثنا ‌القاسم أبو عبد الرحمن ، ‌عن ‌‌أبي ‌أمامة ‌الباهلي قال: "ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان أحدهما عابد والآخر عالم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم». ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله وملائكته وأهل السماوات والأرضين حتى النملة في جحرها وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير(هذا حديث حسن صحيح غريب)."

(أبواب العلم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة، ج: 4 ص: 416 ط: دار الغرب الإسلامي)

سنن ابن ماجہ میں ہے :

"4313 - حدثنا سعيد بن مروان، حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا عنبسة بن عبد الرحمن، عن علاق بن أبي مسلم، عن أبان بن عثمان عن عثمان بن عفان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يشفع يوم القيامة ثلاثة: الأنبياء، ثم العلماء، ثم الشهداء."

 (أبواب الزهد، باب ذكر الشفاعة، ج: 5 ص: 367 ط: دار الرسالة العالمية)

جامع بيان العلم وفضلہ میں ہے:

"عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: "قليل العلم خير من كثير العبادة."

(تفريع أبواب فضل العلم وأهله، باب تفضيل العلم على العبادة، ج: 1 ص: 99 ط: دار إبن الجوزي)

وأيضاًفیہ:

"96 - وحدثنا سعيد بن نصر، نا قاسم بن أصبغ، نا محمد بن وضاح، نا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا وكيع، ثنا سفيان، عن عمرو بن قيس الملائي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فضل العلم خير من فضل العبادة وملاك الدين الورع."

(تفريع أبواب فضل العلم وأهله،باب تفضيل العلم على العبادة، ج: 1 ص: 106 ط: دار إبن الجوزي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں