بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

پیشگی زکات ادا کرنے اور زکات کی رقم سے گھر تعمیر کرکے دینے کا حکم


سوال

میرے ایک ساتھی نے  سوال پوچھا ہے کہ:

1:میں بیرونِ ملک أدویات کا کاروبار کرتا ہوں اور جب سے میں اس کاروبار سے منسلک ہواہوں، مجھے اپنے کُل سرمایہ کی لاگت سے ماہانہ کی بنیاد پر جومجموعی منافع ہوتا ہے ،اس میں سے 2.5% زکوة کے  پیسےالگ کر کے ضرورت مندوں کو دے دیتا ہوں، 12 ماہ میں سے ہر ماہ یہی عمل دہراتا ہوں۔ ان کا سوال یہ ہے کہ زکوة کو الگ کرنے کے لیے شرعی اعتبار سے کیا میرا یہ طرز عمل درست ہے؟

2:کیا میں اس رقم سے ایک  انتہائی ضرورت مند شخص کو اس کے گھر کی تعمیر کروا کے دے سکتا ہوں؟شرعی اعتبار سے میرے لیے کیا حکم ہے؟ راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

1:واضح رہے کہ جس طرح سال مکمل ہونے کے بعدصاحب نصاب شخص کا زکات ادا کرنا درست ہے اسی طرح سال مکمل ہونے سے قبل بھی  زکات ادا کردی جاۓ تو زکات ادا ہوجاتی ہے؛لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا صاحب نصاب ساتھی ہر ماہ کے حساب سے تھوڑی تھوڑی  زکات ادا کرتا ہے تو اس طرح بھی اس کی زکات کا فریضہ ادا ہوجاۓ گا،لیکن سائل کے دوست کو چاہیے کہ زکات کا سال پورا ہونے پر اس وقت اپنے پاس موجود سرمائے کا حساب کرےاوراس وقت قابلِ زکات اموال کے مجموعے کا ڈھائی فیصد نکال کر دیکھے کہ پورے سال کی جو زکات میں نے پیشگی اداکی ہے وہ  واقعتاً ڈھائی فیصد کے  برابر  ہے یا نہیں ، اگر ڈھائی فیصد کے برابر ہو تو تو زکات مکمل ادا ہوگئی،اور اگر اس سے کم ادا ہوئی ہے تو بقیہ رقم ادا کردے تاکہ زکات مکمل ہوجائے۔ نیز اگر سائل کے دوست نے پیشگی زکات میں  زکات کی واجب رقم سے زیادہ رقم ادا کردی تو زائد رقم کو اگلے سال کی زکات میں سےمحسوب کیا جاسکتا ہے، اور چاہے تو سائل کا دوست  اسے نفلی صدقہ شمار کرلے اور آئندہ سال  کی زکات کا حساب الگ سے کرے۔

2:شرعاً زکوۃ کی ادائیگی جس طرح نقد رقم  کی صورت میں جائز ہے اسی طرح کسی  دوسری  جنس مثلا ًاشیاۓ استعمال ،غذائی اجناس ،کپڑے لباس وغیرہ سے زکات کی ادائیگی سے یا مکان تعمیر کرکے  مستحق زکو ۃ کو مالک بناکر دینے سے بھی زکوۃ ادا ہو جاتی ہے ۔صورت ِمسئولہ میں  سائل کے ساتھی  کامستحقِ زکات شخص کو زکات  کی رقم سے گھر تعمیر کروا کر اس شخص کو مالک بناکر دیناجائز ہے،ایسا کرنے سے سائل کے ساتھی  کی زکات ادا ہوجاۓ گی ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويجوز تعجيل الزكاة ‌بعد ‌ملك ‌النصاب، ولا يجوز قبله كذا في الخلاصة."

(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها،ج:1، ص:176،ط:رشيدية)

وفیہ ایضاً:

"أما تفسيرها فهي ‌تمليك ‌المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."

(كتاب الزكاة ،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،ج:1، ص:170، ط:رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المؤدي فمنها أن يكون مالا متقوما على الإطلاق سواء كان منصوصا عليه أو لا ‌من ‌جنس ‌المال ‌الذي وجبت فيه الزكاة أو من غير جنسه."

(كتاب الزكاة، فصل شرائط ركن الزكاة الذي يرجع إلى المؤدي، ج:2، ص:41، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويشترط ‌أن ‌يكون ‌الصرف (‌تمليكا) لا إباحة."

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:244، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں