بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہر ماہ تین روزے رکھنے کی نذر ماننے کے بعد بیمار ہوجانے کا حکم


سوال

ایک عورت نے منّت مانی تھی  کہ میری ماں صحیح ہوجائےگی تو میں ہر مہینے 3 روزے رکھو ں گی،  اب ماں صحیح ہوگئی ہے لیکن عورت بیمار ہوگئی تو وہ کیا کرے اُن روزوں کی قضا کرے یا کفارہ دے ؟

جواب

مذکورہ  خاتون پر نذر کی وجہ سے ہر ماہ تین روزے رکھنا واجب ہیں، لیکن اگر وہ خاتون فی الحال بیماری کی وجہ سے روزے رکھنے پر بالکل قادر نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ جس وقت تَن دُرست ہوجائے اس وقت گزشتہ مہینوں میں چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا کرلے،کیوں کہ روزوں کی نذر ماننے کی صورت میں جب تک طاقت ہو اس وقت تک نذر پوری کرنے کے  لیے روزہ رکھنا ہی لازم ہوتا ہے، البتہ اگر کوئی مستقل بیماری کی وجہ سے منت کے روزے رکھنے پر قادر نہ رہے تو اسے چاہیے کہ ہر روزے کے بدلہ ایک فدیہ دے دیا کرے، زندگی میں روزوں کے فدیہ کے بارے میں یہ حکم ہے کہ  اگر کوئی  شخص ایسا بوڑھا  ہوگیا کہ روزہ رکھنے کی طاقت  نہ رہی  اور آئندہ بھی روزہ رکھنے کی طاقت ہونے کی امید نہیں ، یا ایسا بیمار ہوا کہ  روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہی اور آئندہ صحت یابی کی امید بھی نہیں ہے،  تو ایسی حالت میں زندگی میں روزہ کا فدیہ  دینا درست ہے،  تاہم فدیہ ادا کرنے کے بعد  اگر موت سے پہلے  روزہ رکھنے کی طاقت حاصل ہو جائے اور وقت بھی ملے تو  ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہوگا،  فدیہ صدقۂ نافلہ سے تبدیل ہوجائے گا۔ 

ایک روزے  کا فدیہ  ایک صدقۃ الفطر  کے برابر  یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔تمام روزوں کا فدیہ ایک  ہی محتاج  کو ایک ساتھ دینا چاہے تو دیا جاسکتا ہے، فدیہ ادا ہوجائے گا، اور اگر الگ الگ شخص کو  دینا چاہے تو بھی دے سکتا ہے، دونوں صورتوں میں فدیہ ادا ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 427):

"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوباً، ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير، كالفطرة لو موسراً.

(قوله: وبلا تعدد فقير) أي بخلاف نحو كفارة اليمين للنص فيها على التعدد، فلو أعطى هنا مسكيناً صاعاً عن يومين جاز، لكن في البحر عن القنية: أن عن أبي يوسف فيه روايتين، وعند أبي حنيفة لايجزيه، كما في كفارة اليمين، وعن أبي يوسف: لو أعطى نصف صاع من بر عن يوم واحد لمساكين يجوز، قال الحسن: وبه نأخذ اهـ ومثله في القهستاني."

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"وقدروي عن محمد قال: إن علق النذر بشرط یرید کونه کقوله: إن شفی اﷲ مریضي أو رد غائبي لایخرج عنه بالکفارة، کذا في المبسوط. ویلزمه عین ما سمی، کذا في فتاویٰ قاضي خان." 

الدر المختار مع ردالمحتار فصل في العوارض المبیحة لعدم الصوم ج ۲ ص ۱۷۳ و ج ۲ ص ۱۷۴۔ط۔س۔ج۲ص۴۳۷:

"ولو قال مریض: ﷲ علي أن أصوم شهراً، فمات قبل أن یصح لا شيء علیه، وإن صح ولو یوماً ولم یصم لزمه الو صیة بجمیعه علی الصحیح، کا لصحیح إذا نذر ذلک ومات قبل تمام الشهر لزمه الو صیة با لجمیع بالإجماع\".

ــــــ المحیط البرهاني (2 / 405، الباب  السادس عشر في صدقة الفطر،  ط: دارالکتب العلمیة.

ــــــ بدائع الصنائع، (3 / 146، کتاب الصوم ،  ط؛ دارالکتب العلمیة.

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144207201420

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں