بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہر جمعرات میت کے گھر جانا، چالیسواں کرنا اور چالیسویں تک میت والے گھر کی عورتوں کا خوشی میں شریک نہ ہونا کا حکم


سوال

میت والے گھر میں ہر جمعرات جانا جب تک چالیسواں نہ ہو جاے اور چالیسواں کرنا اور ہر جمعرات میت والے گھر جانا یہ قرآن کریم یاحدیث مبارکہ سے ثابت ہے؟اور کہتے ہیں کہ جب تک چالیسواں نہ ہو جائے میت والے گھر کی عورتیں کسی کی خوشی میں شریک نہیں ہو سکتیں تو ایسا عقیدہ رکھنا جائز ہے کہ نہیں؟وضاحت فرمائیں 

جواب

واضح رہے کہ تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ انتقال سے تین دن کے اندر کسی بھی وقت  میت کے گھر والوں کے یہاں جاکر ان کو تسلی دے ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین و ترغیب اور ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے،تین دن کے بعد تعزیت کے لیے بیٹھنا اورتعزیت کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر تعزیت کرنے والا یا جس سے تعزیت کی جارہی ہو اگر وہ دور ہے  تو تین کے بعد بھی تعزیت کرنا جائز ہے۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میت کے گھر جمع ہونے اور میت کے گھر کھانا تیار کرنے کو نوحہ(جو کہ ناجائز ہے) میں شمار کرتے تھے، لہذا کسی خاص دن، یا ہر جمعرات کو میت کے گھر جانا سب بے بنیاد اور بے اصل ہے، نیز عوام میں ایک غلط عقیدہ یہ بھی مشہور ہے کہ ہر جمعرات میت کے گھر اس کی روح آتی ہے اور دیکھتی ہے کون اسے ثواب بخشتا ہے یہ بھی بے اصل ہے۔

 تیجہ، چالیسواں وغیرہ کرنا سب غیر شرعی رسومات و بدعات ہیں جو کہ ناجائز ہےاور یہ اہل ہنود سے مسلمانوں میں آئی ہیں۔ نیزمیت والے گھر کی عورتوں کا چالیس دن تک خوشی میں شریک نہ ہونا اور تین دن کے بعد بھی سوگ منانا مکروہ ہے، البتہ وہ عورت جس کا شوہر فوت ہوجائے تو وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے گی۔  

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن جرير بن عبد الله البجلي، قال: «‌كنا ‌نرى ‌الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام من النياحة»".

(كتاب الجنائز، باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام، ج:1، ص:514، ط:دار احياء الكتب العربية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"التعزية لصاحب المصيبة حسن، كذا في الظهيرية، وروى الحسن بن زياد إذا عزى أهل الميت مرة فلا ينبغي أن يعزيه مرة أخرى، كذا في المضمرات.

ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها وهي بعد الدفن أولى منها قبله".

(كتاب الصلاة، الباب الحادى والعشرون في الجنائز، مسائل فى التعزية، ج:1، ص:167، ط:رشيدية)

اغلاط العوام میں ہے:

"عوام کا عقیدہ ہے کہ ہر جمعرات کی شام کو مردوں کی روحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں اور ایک کونے میں کھڑے ہوکر دیکھتی ہیں کہ ہم کو کون ثواب بخشتا ہے اگر کچھ ثواب ملے گا تو خیر ورنہ مایوس ہوکر لوٹ جاتی ہیں۔"

(عقائد کی اغلاط، ص:16، ط:ادارۃ المعارف)

راہ سنت میں ہے:

"دلائل اربعہ میں سے کوئی دلیل اس پر دال نہیں ہے کہ ایصال ثواب کے لئے دنوں کی تعیین ضروری ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ رسم مسلمانوں اہل ہنود سے لی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ایصال ثواب کے لئے دنوں کی تعیین ہے۔"

(ایصال ثواب کے لئے دنوں کی تعیین، ص:260، ط:دار الکتاب دیوبند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100969

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں