بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہرگھنٹے میں کان سے پیپ نکلنے والے شخص کے احکامات


سوال

1۔ مسئلہ یہ ہے کہ  گاؤں کے ایک بڑے محلے میں  ایک حافظِ قرآن عالم ِ دین رہتاہے جو  معذور ہے ، اس کی بیمار ی یہ ہے کہ اس کے کان  سے  مستقل  پیپ   بہتا  رہتاہے،اس کی حالت یہ ہے کہ ہرایک گھنٹے میں اس کے کان سے پیپ نکل آتاہے، اس کے علاوہ   باقی عامی لوگوں میں سے   اکثر  تو قرآن پاک  پڑ ھ ہی نہیں سکتے جب کہ  بعض  دوسرے چند  آخری سورتیں پڑھنے  والے بھی  ایسے ہیں جو تجوید   تو  درکنار ، حروفِ کو ان  کی صفاتِ   لازمہ  کے ساتھ اداکرنے سے بھی عاجز ہیں۔

 اب پوچھنا یہ  ہے کہ  اس عالمِ دین کے لیے  نماز پڑھانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر ہے  تو جواز میں فرض ، واجب اور نوافل  سب یکساں  ہیں یا ان میں کچھ تفصیل ہے؟اور اگر اس عالمِ دین کے  لیے نماز پڑھانا جائز نہیں  تو کیا  اس عالمِ دین   کی نماز  ان عامیوں کے پیچھے  جائز ہے یا  نہیں ؟اگر جائز  نہیں تو   کیا اس عالم کو اپنی نماز اکیلے پڑھ لینی چاہیے؟

2۔ مذکورہ معذور  کے لیے حفظ  کی کلاس  پڑھانے یا اپنی  گردان کے دوران  قرآنِ پاک  کو  ہر بار  کپڑے سے  چھونا ضروری  ہے جب کہ  اس میں بہت زیادہ مشقت ہے یاپھر اس کےلیے  وضوکرکے قرآنِ مجید  کو چھونے  کی اجازت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  انسان معذورِ شرعی اس وقت بنتاہے  کہ جب اس کی حالت یہ ہو کہ  اس کو بیماری( خون، پیپ وغیرہ کے آنے)  کی وجہ سے   مکمل وقتِ نماز میں ایک مرتبہ بھی فرض نماز پڑھنے کا موقع نہ ملے ، بلکہ ہر مختصر وقت کےبعد وقفہ وقفہ سے  وہ بیماری (خون، پیپ وغیرہ) لاحق ہو،پھرمعذورکے حکم میں برقراررہنے کےلیے یہ ضروری نہیں کہ دوسری مرتبہ بھی نمازکے پورے وقت میں یہ بیماری آئے،بلکہ دوسری مرتبہ پورے نماز کےوقت میں ایک دفعہ بھی یہ عذرآنا کافی ہے، صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ عالمِ دین کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اس کو   ہرایک گھنٹے میں ایک بار کان سے پیپ آتاہے جب کہ اس کو اتنا وقت ملتاہے کہ وہ اس میں وضوکرکے  وقتی فرض نماز  پڑھ سکے؛ اس لیے   مذکورہ عالمِ دین  معذورِ شرعی نہیں ہے، اب اس کا حکم یہ ہےکہ:

1۔ جس وقت  وہ عالم دین وضو کرکے  نماز پڑھے یا پڑھائے  اور نماز کے دوران اس کے کان سے پیپ نہ  نکلے تو اس کی اپنی نماز بھی درست ہے اور لوگوں کی بھی ، لیکن اگر اس دوران پیپ نکل  آئی ( اور اس وقت وہ نماز پڑھارہاہو) تو اس کی  اور تمام مقتدیوں کی نماز  فاسد ہوجائے گی اور اس  حکم میں تمام نمازیں برابرہیں۔

2۔چوں کہ وہ عالمِ دین  شرعاً معذور نہیں ہے اس لیے حفظ کی کلاس پڑھانے کے دوران  قرآن ِمجید  چھونےکے لیے اس کو باوضو ہونا ضروری ہے، بدونِ وضو بلاکسی حائل کے اس کا قرآن مقدس کو چھونا  شرعاً جائز نہیں ہے۔

الدرالمختارمیں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة."

وفی الردتحتہ:

"(قوله: لا يمكنه إمساكه) أما إذا أمكنه خرج عن كونه صاحب عذر كما يأتي ط. (قوله: أو استطلاق بطن) أي: جريان ما فيه من الغائط (قوله: أو انفلات ريح) هو من لا يملك جمع مقعدته لاسترخاء فيها نهر (قوله: أو بعينه رمد) أي: ويسيل منه الدمع، ولم يقيد بذلك؛ لأنه الغالب۔۔۔(قوله: ولو حكما) أي: ولو كان الاستيعاب حكما بأن انقطع العذر في زمن يسير لا يمكنه فيه الوضوء والصلاة فلا يشترط الاستيعاب الحقيقي في حق الابتداء كما حققه في الفتح والدرر۔۔۔(قوله: في حق الابتداء) أي: في حق ثبوته ابتداء (قوله: في جزء من الوقت) أي: من كل وقت بعد ذلك الاستيعاب إمداد (قوله: ولو مرة) أي: ليعلم بها بقاؤه إمداد."

(کتاب الطہارۃ،باب الحیض،مطلب فی احکام المعذورین،ج:1،ص:305،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144508101229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں