بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حقِ زوجیت ادا نہ کرنا


سوال

جناب مفتی صاحب  میری شادی کے دس سال   ہوگئے، شوہر شادی کے شروع میں بہتر تھے ، جس کی بدولت اللہ تعالی  نے ہمیں بیٹی سے نوازا،  اس کے بعد آٹھ سال ہوگئے کہ  میرا شوہر حقِ زوجیت  ادا نہیں کررہے ہیں، ایک چھت کے نیچے بھائی بہن کی طرح زندگی گزار رہے ہیں، اس طرح  چھ سال تك حقِ    زوجیت ادا نہیں  کر رہے تھے، اس کے بعد  علاج کروایا اور کچھ عرصہ ٹھیک رہا ، جس کی بدولت اللہ تعالی نے ایک بیٹے سے نوازا، اس کے بعد پھر وہ حقِ زوجیت ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ جسمانی تشدد بھی کرتا ہے،وہ نفسیاتی مزاج کا بھی ہے، اب وہ صلح کی بات کرتے ہیں، میں ایک نفسیاتی آدمی کے ساتھ کیسے رہوں،  میں دوماہ سے میکے  میں ہوں، بچوں کو بھی مجھ سے چھین لیا، بچی آٹھ سال اور بچہ دوسال کا ہے۔

1۔اب پوچھنا یہ ہے کہ میرے شوہر  کا اپنا علاج نہ کرانا شرعًا کیسا ہے؟

2۔ میرا حقِ زوجیت ادا نہ کرنا  اور اس میں سستی کرنا شرعا  کیا حکم رکھتا ہے؟

3۔میری اوپر ظلم کرنا اور مجھے مارنا شرعًا کیسا ہے؟

4۔اسی طرح بچوں کا مجھ سے چھیننا کیسا ہے؟ 

جواب

3،2،1۔۔۔صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کا بیان درست  ہے تو سائلہ کے شوہر پر لازم ہے  کہ اپنے علاج معالجہ میں سستی نہ کرے، اور اپنی  شریکِ حیات کے حقوق ادا کرے،  اسی طرح  بلا وجہ بیوی پر ظلم کرنا  اور اسی اذیت پہنچانا سائلہ کے شوہر کے لیے جائز نہیں، ایسا کرنا سائلہ کے شوہر کے لیے ناجائز اور حرام ہے، سائلہ کا شوہر اپنے اس رویہ سے باز  آجائے ورنہ آخرت میں عذاب کا سامنا کرنے پڑے گا،اگر شوہر اپنا مذکورہ رویہ تبدیل نہیں کرتا اور سائلہ اپنے شوہر کے اس رویہ کو برداشت کرکے اس کے ساتھ رہ سکتی ہے تو درست، ورنہ اس کے اپنے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا شرعا جائز ہو گا۔

4۔۔۔ سائلہ کے دونوں بچوں کے پرورش کا حکم یہ ہے کہ     بچہ  سات سال کی عمر  تک اور بچی  نو سال کی عمر تک   اپنی ماں کے پاس رہی گی، اس کے بعد والد کو لینے کا حق حاصل ہو گا، لہذا مذکورہ عمر پورا ہونے سے پہلے  سائلہ کے شوہر کے لئے بچوں کو ان کی ماں سے چھیننا جائز نہیں۔

قال في الدر المختار:

"ویسقط حقہا بمرة ویجب دیانةً أحیانا قال الشامي: قال بعض أہل العلم إن ترکہ لعدم الداعیة والانتشار عذر"۔

(الدر المختار مع رد المحتار ، باب القسم ۴ /۳۷۹ ط:سعید )

وفیہ ایضاً :

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب…(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.….(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعيوقال فی الرد(قوله: وبه يفتى) قال في البحر بعد نقل تصحيحه: والحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية"۔

(کتاب الطلاق،باب الحضانۃ، ج:3، ص:566،567 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100804

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں