دو آدمیوں کی زمین ایک ساتھ ہے، ان میں سے ایک نے اپنی زمین بیچ دی ہے اور دوسرے نے شفعہ کیا، لیکن اس کا شفعہ مسترد ہوچکا ہے،وہ اس لیے کہ خریدار کہتا ہے کہ میں نے آپ کی زمین کے ساتھ 2 گز زمین چوڑائی اور لمبائی میں آپ کی زمین کے آخر تک نہیں خریدی، اس لیے آپ کا شفعہ نہیں ہو سکتا۔اس بارے میں کچھ معلومات دیں!
اگر واقعتًا شفیع (پڑوسی) کی زمین کے ساتھ شروع سے آخر تک 2 گز زمین چوڑائی میں چھوڑ دی گئی ہے اور اتنے حصے کو سودے میں شامل نہیں کیا گیا ہے تو پھر شفیع کو شفعہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 243):
"(وإن باع) رجل (عقارًا إلا ذراعًا) مثلًا (في جانب) حد (الشفيع فلا شفعة) لعدم الاتصال.
(قوله: إلا ذراعًا مثلًا) أي مقدار عرض ذراع أو شبر أو أصبع و طوله تمام ما يلاصق دار الشفيع درر".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 246):
"(تكره الحيلة لإسقاط الشفعة بعد ثبوتها وفاقا) كقوله للشفيع اشتره مني ذكره البزازي. وأما الحيلة لدفع ثبوتها ابتداء، فعند أبي يوسف لا تكره، وعند محمد تكره، ويفتى بقول أبي يوسف في الشفعة قيده في السراجية بما إذا كان الجار غير محتاج إليه، واستحسنه محشي الأشباه (وبضده) وهو الكراهة (في الزكاة) والحج وآية السجدة جوهرة.
(قوله ويفتى بقول أبي يوسف في الشفعة) بل نقل في النهاية أن منهم من قال: إنه لا خلاف فيها. وفي البزازية: وإن قبل الثبوت لا بأس به عدلا كان يعني الشفيع أو فاسقا في المختار لأنه ليس بإبطال (قوله واستحسنه محشي الأشباه) هو العلامة شرف الدين الغزي في تنوير البصائر، حيث قال وينبغي اعتماد هذا القول لحسنه اهـ ط".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200757
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن