بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حقِ ارث ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا


سوال

میرے دادا صاحب کا انتقال تقریباً 1918ء میں ہوگیا تھا، ترکے میں کئی جرب زمین چھوڑی تھی، اس کے وقت ان کے ورثاء میں ایک بیٹا ( یعنی میرے والد ) اور ایک بیٹی تھی، کچھ عرصہ گزرنے کے بعد میرے والد نے اپنی بہن سے کہا کہ میں آپ کو زمین میں سے آپ کا حصہ دینا چاہتا ہوں، تو بہن نے کہا کہ میں نے اپنا حصہ آپ کو بخش دیا ہے، میں نہیں لیتی، والد صاحب نے ان کا حصہ الگ نہیں کیا، میری پھوپھی کے انتقال کے بعد نہ تو ان کے شوہر نے حصے کا مطالبہ کیا اور نہ اس کے بیٹوں نے، اب اس کے پوتے کہتے ہیں کہ ان کے ایک بیٹے نے اپنی والدہ کے حق کا مطالبہ کیا تھا لیکن جب اس کو نہیں ملا تو اس نے اس زمین میں سے تین مرلے قیمتاً خریدلیے۔

اب 2021ء میں ان کے پوتوں کے تعلقات ہم سے خراب ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہماری دادی کا حصہ دیں۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا ان کا اس زمین میں حصہ بنتا ہے یا نہیں؟

واضح رہے کہ زمین سرکاری کاغذات میں ہمارے والد کے نام ہے، لیکن اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ اس وقت خواتین کے نام پر زمین کا انتقال نہیں ہوتا تھا، صرف مردوں کے نام پر ہوتاتھا، اس لیے یہ زمین آپ کے والد کے نام پر ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں دادا کے انتقال کے بعد ان کی متروکہ جائیداد میں سائل کے والد اور سائل  کی پھوپھی دونوں کا حصہ تھا، سائل کے والد نے اپنی بہن کو حصہ دینے کا ارادہ کیا، جس کے جواب میں   بہن نے یہ کہدیا تھا کہ "میں نے  آپ کو  اپنا حصہ بخش دیا ہے، میں نہیں لیتی" جس پر سائل کے والد نے زمین کو اسی طرح رہنے دیا، تقسیم نہیں کیا اور نہ ہی اپنی بہن کو اس کا کوئی عوض دیا تو سائل کی پھوپھی کا حصہ اس زمین میں برقرار تھا، پھوپھی کا حصہ شرعاً ختم نہیں ہوا تھا، اب اگر سائل کی پھوپھی کے پوتے مذکورہ زمین میں  اپنی دادی کے حصے کا مطالبہ کررہے ہیں تو  یہ ان کا شرعی حق ہے، وہ مطالبہ کرسکتے ہیں، سائل کی مرحومہ پھوپھی کا حصہ ان کے تمام شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے حساب سے تقسیم کرنا ضروری ہے اور اگر ان میں سے کوئی فوت ہوگیا ہے تو فوت شدہ کا حصہ اس کے ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔

تقسیم کا شرعی طریقہ تمام ورثاء کی تفصیل بتا کر معلوم کیا جاسکتا ہے۔

عقودِ دریہ میں ہے:

"(سئل) في أحد الورثة إذا أشهد عليه قبل قسمة التركة المشتملة على أعيان معلومة أنه ترك حقه من الإرث وأسقطه وأبرأ ذمة بقية الورثة منها ويريد الآن مطالبة حقه من الإرث فهل له ذلك؟

(الجواب) : ‌الإرث ‌جبري ‌لا ‌يسقط ‌بالإسقاط وقد أفتى به العلامة الرملي كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره فراجعه إن شئت۔"

( العقود الدرية، ج: 2، كتاب الدعوي، ص: 26، ط: دار المعرفة )

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144305100582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں