بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

حقِّ زوجیت ادانہ کرنے اورنان و نفقہ نہ دینے کا حکم


سوال

میری شادی کو چودہ سال ہوگئے ہیں ، میرے دوبچے ہیں ،جن کی عمر یں چودہ اور دس سال ہیں ، شادی کے شروع میں ہی میرے شوہر کو مجھ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور انہوں نے اپنا بستر بھی الگ کرلیاتھا، شادی کے اٹھ سال بعد وہ نوکری کی غرض سے دبئی چلے گئے ، اس عرصے میں انہوں نے وہاں دوسری عوتوں سے بھی تعلقات رکھے ، جبکہ مجھ سے (sexual relatin ( (جنسی تعلقات) برائے نام تھے ،وہ جب بھی مجھ سے جنابت کا کہتے وہ اس بات پر مجھے  سےاصرار کرتے کہ میں داخلہ ممنوعہ یعنی (back side)سے جماع کرواؤں اور جب میں منع کرتی تو ناراض ہوتے اور مارتے ، آہستہ آہستہ کرکے ہمارے درمیان جنسی تعلقات ختم ہوگئے ،پچھلے دو تین سال میں شاید ہی وہ ایک یادو دفعہ بھی میرے ساتھ سوئے ہوں، بچوں کا وہ خیال رکھتے ہیں ،گھر کا راشن شوہر لےکر آتاہے،لیکن میراشوہر  مجھے  جیب خرچ نہیں دیتے ، میں نوکری کرتی ہوں اور  میں اپنا  خرچہ  خود اٹھاتی ہوں ، میراسوال یہ ہے کہ  کیا ان کا اور میرا تعلق ابھی بھی براقرار ہے اور میں دوسرانکاح کرنا چاہوں تو کرسکتی ہوں ،کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ تم مجھ سے خلع لینا چاہو تولے لو  میں  طلاق نہیں دوں گا ، براہ کرم ، اس معاملے میں میرے راہ نمائی کریں ، اور یہ بھی بتائیں کہ جو میں نے ان کے اصرار   پر ممنوعہ جگہ سے جماع کروایاہے تو ہمارا نکاح فاسد ہوگیاہے یاقائم ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے  میاں بیوی کےایک دوسرے پر حقوق  مقرر کیے ہیں ،جن کی حسبِ استطاعت پاس داری  کرنا  ہرایک  پرشرعاً ضروری   ہے،میاں بیوی میں سےجو بھی ان میں کوتاہی کرے گاوہ گناہ گار ہوگا۔

 صورتِ مسئولہ میں سائلہ نے اپنے شوہر کے بارے میں جو کچھ  تفصیل لکھی ہے، اگر یہ تفصیل واقعۃ صحیح اور درست ہے ، تو یقینًا  شوہر اپنے ان افعال کی وجہ سے سخت گناہ گار ہے ، سائلہ کے شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کےساتھ بیوی کا بھی خیال رکھے اور وظیفہ زوجیت  بھی اداکرے  ،حق زوجیت ( ہم بستری ) کے لیے  شریعت  مطہرہ نے جو محل متعین کیاہے صرف اس راستہ  سے ہمبستری  کرنا جائز ہے ، بیوی سے   لواطت  کرنا یعنی پیچھے کے راستہ سے تعلق قائم کرناحرام اور ناجائز  ہے  رسول اللہ ﷺ نے ایسے شخص کو ملعون فرمایاہے البتہ اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا،سائلہ کا نکاح قائم ہے ، کسی دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ، سائلہ کو چاہیے کہ اس معاملہ کے حل کے لیے  دونوں خاندان کے معزز اور سمجھ دار  بزرگ  افراد سے رابطہ کرے  ان کے ذریعے  اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے ، اس کے باوجو د بھی اگر شوہر راہ راست پر نہ آئےاور سائلہ کا حق زوجیت  ادانہ کرے تو سائلہ  اپنے شوہر  کے ساتھ باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ  کرسکتی ہے ، خلع کامعاملہ ہوجانے  کے بعد نکاح اسی وقت ختم ہوجائے گا  ، جس کے بعد عدت گزار کرسائلہ  کا دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرنا درست اور جائز ہوگا ۔

ردالمحتار میں ہے:

"(قوله: و يسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقًا لايحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانًا واجب ديانةً لكن لايدخل تحت القضاء و الإلزام إلا الوطأة الأولى، و لم يقدروا فيه مدةً و يجب أن لايبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به اهـ قال في النهر: في هذا الكلام تصريح بأن الجماع بعد المرة حقه لا حقها اهـ قلت: فيه نظر بل هو حقه و حقها أيضًا لما علمت من أنه واجب ديانةً.

قال في البحر: وحيث علم أن الوطء لايدخل تحت القسم فهل هو واجب للزوجة؟ و في البدائع: لها أن تطالبه بالوطء؛ لأن حله لها حقها كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرةً والزيادة تجب ديانةً لا في الحكم عند بعض أصحابنا وعند بعضهم عليه في الحكم اهـ وبه علم أنه كان على الشارح أن يقول: ويسقط حقها بمرة فيبعضهم عليه في الحكم اهـ"

 (کتاب النکاح، باب القسم (3 / 202) ط: سعید

الدرالمختار میں ہے:

"و في الاشتباه: حرمتها عقلية فلا وجود لها في الجنة ... و في البحر حرمتها أشد من الزنا لحرمتها عقلًا و شرعًا و طبعًا."

و في الشامية:

"ثمّ وفق بما في التتارخانية عن السراجية: اللواطة بمملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام."

(كتاب الحدود، فرع الاستمناء4/28 ط:سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و أما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع۔"

(باب ا لخلع ج3،ص441،ط:ایچ ایم سعید)

فقہ السنۃ میں ہے:

"والخلع يكون بتراضي الزوج والزوجة۔"

(کتاب الطلاق،۲/۲۹۹دارالکتاب العربی)

ہندیہ میں ہے :

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

(الفصل الاول فی شرائط الخلع 1/ 488 ط:رشدیہ )

سنن ابی داود میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "ملعون من أتى امرأتهفي دبرها۔"

ترجمہ :یعنی ایسا شخص ملعون ہے جو عورت کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرتا ہے  ۔

( کتاب النکاح ،باب في جامع النكاح3/490ط:دار الرسالة العالمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں